من قبل نفسه اھ) جس سے صاف ظاہر ہے کہ ابن القطان رحمۃ اللہ علیہ جملہ ثُمَّ لَا يَعُودُ کو صحیح نہیں سمجھتے اس لیے صاحب عرف شذی کا بلا استثناء(وصححه ابن القطان) لکھنا درست نہیں
مولانا صاحب امام وکیع جب ثقہ ہیں تو ثقہ کی زیادت قابل اعتبار ہے نیز انہوں نے اس روایت کو صحیح سمجھ کر عمل کرکے چار چاند لگا دیے ہیں۔ نیز امام وکیع اس زیادت کے نقل کرنے میں منفرد نہیں بلکہ حضرت ابن المبارکثم لم يعد نقل کرتے ہیں۔
آگے مولانا حافظ عبدالمنان صاحب لکھتے ہیں بطور عنوان وسرخی دے کر اس طرح صاحب ِ مشکوٰۃ پر ایک وہم کے الزام کی حقیقت۔
اسی کے تحت آگے جاکر مولانا صاحب لکھتے ہیں کہ اس مقام پر صاحبِ مشکوٰۃ کی طرف وہم کی نسبت بجائے خود ایک وہم ہے الخ
اصل بات یہ ہے کہ مولاناصاحب پریشانی میں پڑ گئے ہوں گےکہ صاحب مشکوٰۃ کا وہم ہاں مولانا صاحب تحقیق کے میدان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ تو ایک پڑھ کر پریشان ہورہے ہیں جبکہ صاحب ِ مشکوٰۃ کے اوہام کثیرہ ہے تفصیل کی اب گنجائش نہیں ویسے چلتے چلتے ایک دو ملاحظہ فرمالیجئے۔
1۔ مشکوٰۃج1ص 88میں عَنْ ابْنِ الزَّبَيْرِ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ مِنْ صَلٰوتِهٖ يَقُوْلُ بِصَوْتِهٖ اْلاْعليٰ لَا اِلٰهْ اِلَّا للّٰهُ الحديث رواه مسلم۔ حالانکہ صحیح مسلم میں ج1ص218، یہ روایت موجود ہے اور بصوتہ الاعلیٰ کے الفاظ موجود نہیں۔ بدعتی ذکر بالجہر کے ثبوت میں مشکوٰۃ اس غلط روایت سے استدلال کرتے ہیں۔
2۔ مشکوٰۃ ج2ص 544 میں ایک روایت ہے جس کے بعض الفاظ یہ ہیں۔ استقبلَهُ داعي امرأتِهِ یہاں سےبدعتی استدلال کرتے ہیں کہ میت کے گھر کا کھانا جائزہے۔ حالانکہ صحیح الفاظ داعی امراۃ کے ہیں بغیر ضمیر کے چنانچہ یہ روایت ابوداؤد ج1 ص مشکل الاثار ج2 ص 132مقتم ص 169 شرح معانی الاثار ج2 ص 321 دارقطنی
|