السنن سے نقل کی تھی۔
قاضی صاحب کا مبلغ علم اور سخن فہمی:
معلوم ہوتا ہےقاضی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے زیادہ تر آثار السنن اور اس کی تعلیقات سے نقل کیا ہے اور انہیں سمجھنے کا حال بھی یہ ہے کہ اپنی پہلی تحریر میں آثار السنن سے اس کا حوالہ دئیے بغیر نقل کردیا کہ سجدہ میں جاتے وقت ہاتھ پہلے زمین پر رکھنے کی حدیث کے متعلق ابو زرعہ نے لکھا ہے”اس کی سند میں ابو حاتم ہے اور اس کا حافظہ خراب تھا اور ابن حجر نے میزان میں یہی بات لکھی ہے۔ “دیکھئے قاضی صاحب کی پہلی تحریر جو ایک دین اور چار مذہب کے صفحہ 11پر حرف بحرف درج کی گئی ہے۔
اس پر میں نے عرض کیا:
”ہاں ایک بات کا حوالہ ہم آپ سے ضرور طلب کریں گے جو آپ نے ابو زرعہ کے ذمہ لگائی ہے کہ انھوں نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں ابو حاتم ہے اور اس کا حافظہ خراب ہے ہمیں تو کوئی ایسی سند نہیں ملی جس میں ابو حاتم ہو بیچارے ابو زرعہ پر بھی یہ الزام ہی معلوم ہوتا ہے۔ “(ایک دین اور چار مذہب ص49)
یہ بات میں نے اس لیے لکھی تھی کہ ابو حاتم بالاتفاق زبردست حافظ اور محدث ہیں ابو زرعہ ان کا حافظہ خراب کس طرح کہہ سکتے ہیں؟علاوہ ازیں اس روایت میں ابو حاتم ہیں ہی نہیں کہ ان پر جرح کی ضرورت ہو۔
اب قاضی صاحب نے آثار السنن کی تعلیقات سے میزان کی وہ عبارت نقل کی ہے جس کا مطلب مندرجہ بالا الفاظ میں انھوں نے بیان کیا تھا۔ عبارت یہ ہے: (وقال أبو حاتم : لا يحتج به وقال أبو زرعة : سيئ الحفظ )اس عبارت کا ترجمہ پہلی تحریر میں جناب قاضی حمید اللہ صاحب الموصوف بالقابہ نے یہ کیا تھا”ابو زرعہ نے لکھا ہے اس کی سند میں ابو حاتم ہے اور اس کا حافظہ خراب تھا۔ “یہ ترجمہ بالکل غلط
|