علمائےدیوبند کی کرامات
جناب قاضی حمیداللہ صاحب نے اپنی پہلی تحریر میں نبیوں، ولیوں کو عالم الغیب ماننے، اپنی حاجتوں میں غیروں کو پکارنے، ان سےنفع کی اُمید رکھنے اور ان کے ضرر سے ڈرنے کو کفر وشرک قراردیاتھا۔ اس پر میں نے اکابر علماء دیوبند کے چند واقعات وعبارات انہی کی کتابوں سے نقل کرکے عرض کیا حضرت! یہ سب کچھ تو ان اکابر میں بھی موجود ہے ان پر کیا فتویٰ ہے۔
قاضی صاحب نے اس پر کہا ہے کہ یہ واقعات عالم مثال اور کرامات سے متعلق ہیں پھر عالم مثال کے اثبات کے لیے احادیث سے چند مثالیں پیش کی ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث سے چند کرامات نقل کی ہیں۔ اور اس تاویل کےساتھ اپنے اکابر کےصریح شرکیہ عقائد کو کرامات کا جامہ پہنادیا ہے۔
عالم مثال شاہ ولی اللہ صاحب کی ایک اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کا جو مفہوم وہ مرادلیتے ہیں اس میں مناقشہ کی گنجائش ہے مگر مجھے اس سے غرض نہیں آپ عالم مثال کے اس خاص مفہوم کو مان بھی لیں تو میری تحریر میں اس کے متعلق بات ہی نہیں اسی طرح بات یہ نہیں کہ اکابر دیوبند سے کرامات ظاہر ہوئیں یا نہیں۔ بات تو یہ ہے کہ آپ کے فرمان کےمطابق نبیوں ولیوں کو عالم الغیب ماننا، اپنی حاجتوں میں غیروں کو پکارنا، ان سے نفع کی اُمید رکھنا اور ان کے ضرر سے ڈرنا کفر وشرک ہے اور ان حکایات وواقعات میں اکابر علمائے دیوبند اپنی مصیبتوں اور حاجتوں میں غیر اللہ کوپکارنے اور ان کی اس پکار کو سن کر مدد کو پہنچنے کا ذکر فرمارہے ہیں۔ فرمائیے کیامصیبت کے وقت اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارنا کرامت ہے؟نہیں، یہ ہرگز کرامت نہیں یہ تو پرلے درجے کی دنائت ہے۔ کرامت تو یہ ہے کہ انسان سخت سے سخت مصیبت اور حاجت میں بھی اللہ تعالیٰ کے در کا ہی سائل رہے کسی غیر سے سوال نہ کرے اور اللہ تعالیٰ
|