3۔ قاضی صاحب عقیدہ کے اختلاف کو اصولی اور عمل کے اختلاف کو فروعی قراردے رہے ہیں اورتائید میں میرے استاد مکرم رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کررہےہیں جس میں انہوں نےفرمایا کہ:
”شیعہ اور سنی میں اختلاف اصولی ہے اور اہل سنت کے فرقوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے خواہ اعتقادی ہو، خواہ فقہی۔ فروعی ہے۔ “
گویا استاذ مرحوم کے نزدیک اصولی فروعی کی تقسیم یہ نہیں کہ عقیدہ کا اختلاف ہوتو فروعی ہے بلکہ یہ ہے کہ شیعہ سنی کا اختلاف(عقیدہ میں ہویا عمل میں)اصولی ہے اورسنیوں کا آپس میں اختلاف (عقیدہ میں ہو یا عمل میں فروعی ہے)فرمائیے قاضی صاحب کو اس سے کیا تائید حاصل ہوئی اور اگر انہیں اصرار ہے کہ یہ قول ان کی تائید میں ہےتو”سخن فہمی عالم بالامعلوم شد“ کے علاوہ کیا عرض کیا جاسکتا ہے۔
لطف یہ ہے کہ کفر واسلام کا فیصلہ کرنے والی اختلاف کی خودساختہ اقسام کے متعلق یہ دعویٰ کردیاہے کہ وہ اقسام ساری اُمت سے چلی آرہی ہیں۔ فرمائیے ساری امت میں سے کس نے کہا ہے کہ اصول دین(عقیدہ) میں اختلاف کفر واسلام کا اختلاف ہے اور فروع دین میں اختلاف فروعی ہے اور کفر واسلام کا اختلاف نہیں۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو یا کسی صحابی نے یا تابعی نے یا تبع تابعی نے۔ کیا ساری اُمت میں یہ لوگ شامل نہیں؟یہ بات تو تفتازانی نے بھی کہی۔ اگرچہ وہ کہہ بھی دیتے تو اس کی کوئی قدروقیمت نہ تھی کیونکہ ان کا قول دین میں حجت نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اصول دین وفروع دین میں اختلاف کی تقسیم جو کفر واسلام کا فیصلہ کرتی ہے قاضی صاحب کی طبع زاد تصنیف، اور بالکل بے دلیل بات ہے اور ستم بالائےستم یہ کہ وہ اپنی گھڑی ہوئی بات کو پوری اُمت کی بات قراردے رہے ہیں۔ (تجاوز اللّٰه عن ذنبک الجلي و الخفي)
|