”احکام شرعیہ میں سے بعض کاتعلق کیفیت عمل سے ہے اور فروع کہلاتے ہیں اور بعض کا تعلق اعتقاد کےساتھ ہے اور اصل کہلاتے ہیں دلیل میں یہ آیت لکھی ہے:(أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ)(اظہار ص6)
مگر اصول وفروع دین کی اس تقسیم وتعریف سے تو قاضی صاحب کو بہت ہی زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔
1۔ جب عقائد اصول دین ہیں اوراعمال دین میں اختلاف بقول قاضی صاحب کفر واسلام کا اختلاف ہے تو پھر امت میں عقیدے کا ہر اختلاف کفرواسلام کا اختلاف ہوگا۔ کیا قاضی صاحب کو یہ منظورہے؟
2۔ قاضی صاحب کی پہلی تحریر میں لکھا تھا کہ”صحابہ میں اختلاف تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات خدا پاک کادیدار کیاتھا یانہیں؟مردےسنتے ہیں یا نہیں اس قسم کا اختلاف اسلام اورکفر کا اختلاف نہیں“۔ ظاہر ہے کہ مردوں کے سننے یا نہ سننے میں اختلاف عقیدے کا اختلاف ہے مگر قاضی صاحب نے پہلی تحریر میں عقیدے کا اختلاف ہونے کے باوجود اسے فروع دین میں شامل کردیا۔ اوراظہار المرام میں عقیدے کے اختلاف کو(بلاامتیاز) اصول دین میں اختلاف بنادیا اور یہی تناقض اس تقیسم کے خود ساختہ ہونے کی اور جامع مانع نہ ہونے کی دلیل ہے۔
نوٹ: میں نے لکھا تھا کہ”یہ بات کہ مردہ ہر آنے والے کی ہر با ت سنتاہے اس میں بھی صحابہ کا اختلاف تھا یہ بات غلط اوربے دلیل ہے“قاضی صاحب نے اس پر سکوت فرمایاہے اور اس بات میں صحابہ کے درمیان اختلاف کی کوئی دلیل نہیں دی اسی طرح میں نے معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں کے ساتھ نہ دیکھنے میں صحابہ کے اختلاف سے لا علمی ظاہر کی تھی۔ قاضی صاحب نے اس اختلاف کے وجود کی بھی دلیل نہیں۔ فهل هذا السكوت الا دليل التسليم؟
|