اس کے برعکس دوسری صرف ابن خزیمہ میں ہے نسائی اور ابو داؤد میں نہیں۔ یہ روایت مختصر ہے اس کے لفظ ہیں”آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا“اس کو ہم نے اپنے استدلال کی بنیاد نہیں بنایا۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ان دونوں روایتوں کے مابین ان چار فرقوں کے علاوہ ایک پانچواں فرق بھی ہے وہ یہ کہ تین کتابوں ابو داؤد، نسائی اور ابن خزیمہ والی روایت کی سند میں مؤمل بن اسمٰعیل نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی اور ضعیف راوی ہے جب کہ صرف ابن خزیمہ والی روایت کی سند میں مؤمل بن اسمٰعیل راوی ہے تو ان دونوں روایتوں کے امتیاز کی خاطر ہم نے لفظ ”فقط ابن خزیمہ“استعمال کیا ہے تاکہ یہ دونوں روایتیں قاری پہ کہیں خلط ملط نہ ہو جائیں۔
دوسری حدیث:
(عَنْ أبی حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فی الصلاۃ ...وَ قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُهُ إِلاَّ يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
(صحیح بخاری ج1ص102 باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰۃ۔ مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ص111 وضع الیدین احداھما علی الاخری فی الصلوٰۃ)
”ابو حازم سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں لوگ حکم دئیے جاتے تھے کہ آدمی نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھے، ابو حازم کہتے ہیں مجھے صرف اور صرف یہی معلوم ہے کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ “
اس حدیث کو صاحب تحریر نے بھی نقل فرمایا اور لکھا”اس حدیث میں نہ سینے پر ہاتھ باندھنے اور نہ ہی زیر ناف ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے“مگر انہیں یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ اس حدیث میں دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع۔ جس کا معنی صاحب تحریر نے
|