فائدہ: ان احادیث میں بھی تکبیر تحریمہ کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت کندھوں تک رفع الیدین (ہاتھ اُٹھانے) کا ثبوت ہے، بعض لوگ زبانی کلامی کندھوں تک رفع الیدین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہونے کو تسلیم تو کر لیتے ہیں مگر اپنی زندگی میں اس پر عمل ایک دفعہ بھی نہیں کرتے انہیں اپنے اس رویہ پر نظر ثانی فرمانی چاہیے۔
سوال وجواب:
بعض لوگ کہتے ہیں رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سراُٹھاتے وقت کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اُٹھانے کی احادیث پہلے کی ہیں، بعدمیں جب رکوع والا رفع الیدین ہی منسوخ ہوگیا تورکوع والےرفع الیدین کی ہئیت کذائی خود بخود ختم ہوگئی لہٰذا صاحب تحریر کاتکبیر تحریمہ والی بات کہنا بجاہے؟
جواباً گزارش ہے کہ رکوع والا رفع الیدین منسوخ نہیں، چنانچہ مولانا انور شاہ صاحب کشمیری حنفی، مولانا محمد یوسف بنوری حنفی، مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی اور دیگر کئی حنفی بزرگ اپنی کتابوں میں رکوع والے رفع الیدین کے منسوخ ہونے کی تردید کرتے ہیں، لہٰذا ان چاروں مقامات پرکندھوں یا کانوں تک رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہے، محکم ہے منسوخ ہرگز نہیں، تو اس بے بنیاد اور بالکل غلط دعوائے نسخ کو ان مقاموں پر رفع الیدین کی ہئیت کذائی کے ختم ہونے کابہانا بنانا نرا افسانہ ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔
نوٹ:صاحبِ تحریر لکھتے ہیں”تکبیر تحریمہ میں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کی لوتک اُٹھانا بھی سنت ہے، اس دعویٰ کے جو دلائل انھوں نے پیش فرمائے ان کا حال پہلےلکھا جاچکا ہے کہ وہ کمزور اور ضعیف ہیں۔ اس مقام پر ایک اورطرف توجہ دلانا مقصود ہے، اور وہ یہ کہ صاحبِ تحریر کا لفظ”بھی“ بتارہا ہے کہ اس مقام پر کندھوں تک ہاتھ اُٹھانا بھی ان کے نزدیک سنت ہے۔ حالانکہ حنفی اصطلاحات کی
|