لکھ چکا ہے کہ” رکوع والا رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ غیر منسوخہ ہے“ (میرا رقعہ نمبر1 ص12) لہٰذا ان کا یہ دوسرا سوال بھی اپنے اندر کوئی جواز نہیں رکھتا۔
قاری صاحب کا تیسرا سوال اور اس کا جواب
3۔ قاری صاحب کا تیسرا سوال ہے”ان مذکورہ شقوں میں سےجو بھی اختیار کرو اس کی دلیل“ بندہ نے اس کا جواب دیا تھا”اور تیسرے سوال کی اس لیے کوئی وجہ جواز نہیں کہ آپ منسوخیت رفع الیدین کے مدعی ہیں اوردعوائے منسوخیت کی صورت میں ثبوت شرعی مدعی اور سائل دونوں کے ہاں مسلم ہوتاہے اس لیے ایسی صورت میں اثبات کے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی نسخ کے دلائل پر بات چیت ہوا کرتی ہے ہاں اگر آپ منسوخیت رفع الیدین والے دعویٰ کو واپس لے لیں او رلکھ دیں کہ رفع الیدین سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں تو یہ بندہ ضرور بالضرور ان شاء اللہ العزیز اثبات رفع الیدین کے دلائل جناب کی خدمتِ اقدس میں پیش کردے گا، یہ بات میرے پہلے رُقعہ میں بھی موجود ہے“۔ (دیکھئے میرا رقعہ نمبر 2 13 اور رقعہ نمبر 3 ص3 اور رقعہ نمبر 4 ص 3) قاری صاحب کے اس تیسرے سوال کا یہ جواب بندہ کے رقعہ نمبر1 رقعہ نمبر 2 رقعہ نمبر 3 اور رقعہ نمبر 4 میں بھی موجود ہے اور چوتھے رقعہ میں عنوان کے تحت اس جواب کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ چنانچہ نیچے ملاحظہ ہو۔
اس جواب کی قدرے توضیح
قاری صاحب!”منسوخیت رفع الیدین“ آپ کا دعویٰ ہے اور منسوخ اسی شے کو کہاجاتا ہے جو شرع میں پہلے پہل ثابت شدہ ہو، تو آپ نے یہ دعویٰ کرکے مواضع ثلاثہ میں رفع الیدین کے پہلے پہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کو تو تسلیم فرمالیا ہوا ہے، اب دلیل آپ کس کی طلب فرماتے ہیں؟ اب تو آپ کا فرض ہے الخ۔ (میرا رقعہ نمبر 4 ص3)
|