نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے البتہ گیارہ اور تیرہ رکعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیاتھا۔ اور لوگ بھی ان کے دور میں گیارہ اور تیرہ رکعات پڑھتے تھے تو گیارہ اور تیرہ رکعات نما ز تراویح اہل مدینہ منورہ کے بیس اکتالیس وغیرہ تعاملوں سے افضل اور اقدم تعامل ہے کیونکہ اسے سنت نبویہ ہونے کا شرف حاصل ہے نیز گیارہ رکعات پر امر فاروقی اور عمل در عہد نبوی وعہد فاروقی کی مہرثبت ہے۔
6۔ کوفہ کا تعامل:
حضرت المؤلف شہر کوفہ کی تاریخی حیثیت اجاگر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”اس تاریخی حیثیت سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا طرز عمل پہلے پیش کیا جاتا ہے اس کے بعد حضر ت علی رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بھی بیان کیاجائے گا۔
(محمد بن نصر المروزي قال: أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب قال: «كان عبد اللّٰه بن مسعود يصلي بنافي شهر رمضان قال الأعمش كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً) (ص 17)
”(محمد بن نصر نے روایت کیا کہ ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے خبر دی کہ ہمیں حفص بن غیاث نے اعمش سے خبر دی انہوں نے زید بن وہب سے روایت کیا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود ماہ رمضان میں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ اعمش کہتے ہیں کہ وہ(عبداللہ) بیس رکعت پڑھاتے تھے)،
1۔ اولاً: تو اس اثر کی سند میں حفص بن غیاث اور اعمش دوراوی ہیں۔ حفص بن غیاث سے متعلق تقریب میں ہے:
(ثقة فقيه تغير حفظه قليلا في الآخر) (ثقہ فقیہ ہے۔ آخر میں اس کا حافظہ تھوڑا سا متغیر ہوگیا تھا) اور اعمش کی بابت تقریب ہی میں تحریر ہے(ثقة حافظ عارف بالقراءة ورع لكنه يدلس) (ثقہ حافظ ہے قراءت کا عالم ہے پرہیز گارآدمی ہے مگر تدلیس کرتا ہے) مدلس راوی
|