کے بارے میں اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب وہ لفظ عن یا کسی ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے جو سماع میں نص نہ ہوتو پھر اس کی روایت حجت نہیں ہوتی اور اس مقام پر حضرت اعمش اس اثر کو لفظ عن کے ساتھ روایت کرتے ہیں تو اصول حدیث ” جس کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے“ کی رو سے یہ اثر قابل احتجاج واستدلال نہیں۔
2۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں(كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً)( وه بيس ركعات پڑھتے تھے) اعمش کابیان ہے جن کا سنہ ولادت اکسٹھ ہجری ہے صاحب تقریب فرماتے ہیں:
(وكان مولده أول احدى وستين سنة)(اس کی پیدائش 61ھ اکسٹھ ہجری کے شروع میں ہوئی) اور بعض مؤرخین نے ان کا سنہ ولادت انسٹھ ہجری بتایا ہے جب کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاسنہ وفات بتیس یا تینتیس ہجری ہے حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں:
(ومات سنة اثنتين وثلاثين أو في التي بعدها بالمدينة) ”(آپ 32ھ میں یا اس سے آئندہ سال مدینہ میں فوت ہوئے)۔ “
تو حضرت اعمش حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی وفات سے کوئی ستائیس اٹھائیس بعد برس پیدا ہوئے تو ان کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق قول (كَانَ يُصَلِّي عِشْرِينَ رَكْعَةً ) کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے؟جب کہ عالم یہ ہے کہ حضرت اعمش مدلس بھی ہیں رہا مرسل کا حجت ہونا تو اس پر کلام پہلے گزر چکا ہے اسے ملاحطہ فرمائیں صاحب رسالہ کے ذکر کردہ اس اثر سے حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا بیس رکعات پڑھنا پڑھانا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ نہ اثر اصول حدیث کے اعتبار سے قابل احتجاج ہی نہیں اور ”اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے“تو صاحب رسالہ کابیان ”اس اثر سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اسی تعامل پر کار بند
|