تھے جو انھوں نے مدینہ منورہ میں رائج پایا تھا۔ “محل نظر ہے کیونکہ اس اثر سے نہ تو حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا بیس رکعات پڑھانا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا بیس رکعات کو مدینہ منورہ میں رائج پانا۔
حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں:
”اعمش (راوی اثر) کے بیان کی پرزور تائید اس سے ہوتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے اصحاب خاص خصوصاً شیتربن شکل اور سوید بن غفلہ لوگوں کو(کوفہ میں)بیس رکعات تراویح پڑھایا کرتے تھے جن کا ذکر آرہا ہے۔ “(ص18)
1۔ اولاً: تو حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کےاصحاب کے اہل کوفہ کو بیس رکعات تراویح پڑھانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شیتربن شکل اور سوید بن غفلہ کے آثار تو ان پر کلام اس مقام پر ہوگا جس مقام پر حضرت المؤلف ان کو بیان فرمائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
2۔ وثانیاً: حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اصحاب خاص کے بیس رکعات تراویح پڑھنےپڑھانے سے لازم نہیں آتا کہ خود حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیس پڑھتے ہوں یا انھوں نے اپنے اصحاب خاص کو بیس پڑھنے پڑھانے کی تلقین کی اور ترغیب دی ہو کیونکہ واقع شاہد صدق ہے کہ شیخ اور شیخ کے اصحاب خاص کے عقائد، اعمال اور اقوال میں بیشتر اوقات اختلاف پایا جاتا ہے دور نہ جائیے صرف حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفررحمہم اللہ کے عقائد، اعمال اور اقوال کا مطالعہ فرمالیجئے جا بجا آپ کو حضرت الامام اور آپ کے اصحاب خاص کے مابین اختلاف ملے گا تو اصحاب حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بیس پڑھنے پڑھانے سے حضرت اعمش کے بیان واثر کی تونری تائید بھی نہیں ہوتی پرزور تائید تو بعد کی بات ہے۔
|