Maktaba Wahhabi

368 - 896
صاحب رسالہ فرماتے ہیں: ”یاد رہے کہ یہ دونوں بزرگ عہد نبوی میں مسلمان ہوئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکے ان کے تعامل سے سابقہ روایات کی مزید تائید ہوتی ہے اس لیے کہ عہد فاروقی سے بھی خوب واقف تھے جس کے آغاز سے یہ سنت جاری ہوئی تھی۔ “(ص18) 1۔ اولاً:ان دونوں بزرگوں کے تعامل (بشرط ثبوتہ وسیاتی مافیہ ان شاء اللہ تعالیٰ) سے سابقہ روایات کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ ایک یادو بزرگ جس قدر نفلی عبادت کرتے ہوں ضروری نہیں کہ ان کے دورو زمانہ کے سب یا اکثر لوگ اتنی ہی نفلی عبادت کرتے ہوں بلکہ دوسروں کا ان کے کم و بیش عبادت کرنا بھی وقوع پذیر ہے پھر ان کے عہد فاروقی سے خوب واقف ہونے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جتنے بھی نوافل پڑھیں اتنے نوافل عہد فاروقی میں بھی پڑھے پڑھائے جاتے ہوں تو ان دو بزرگوں کے تعامل بیس رکعات (بشرط ثبوتہ) سے سابقہ روایات کی تائید بالکل نہیں ہوتی مزید تحقیق کے لیے کسی عالم کے کسی روایت واثر کے موافق یا مخالف عمل کرنے یا فتویٰ دینے پر ماہرین اصول کی تحریر کردہ مباحث کا مطالعہ فرمائیں۔ ہاں اگر ان دو بزرگوں میں سے کسی بزرگ کا کوئی ایک بیان بھی ہے کہ: ”عہد فاروقی میں بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات پڑھیں یا انھوں نے کسی کو بیس رکعات پڑھنے پڑھانے کا حکم دیا یا حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیس رکعات پڑھنے یا انھوں نے اپنے اصحاب خاص یا اصحاب عام میں سے کسی کو بیس پڑھنے پڑھانے کا حکم دیا۔ “تو وہ بیان نقل فرمائیں۔ 2۔ وثانیاً:صاحب رسالہ نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں بیس رکعات کو سنت قراردیا
Flag Counter