بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
توحید ورسالت کی شہادت کے بعد اسلام میں صلوٰۃ (نماز) کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور عمل کو حاصل نہیں کیونکہ اسی سے آدمی کے کفر واسلام کا فرق ظاہر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت وہی نماز حاصل کرسکتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو۔ صحیح بخاری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ:
(صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي)
”یعنی تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ “
مگر بعض لوگوں نے تقریباً ہر عمل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو مسخ کرکے اپنی مرضی کے مطابق کچھ طریقے اختیار کرلیے نماز بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکی۔ انہوں نے بہت سی چیزیں اپنے پاس سے ایجاد کیں مثلاً”اللہ اکبر“ کے علاوہ کوئی لفظ کہہ کر نماز شروع کرنے کی اجازت، سورہ فاتحہ کے بغیر امام، مقتدی اور منفرد کو نماز پڑھنے کی اجازت، رکوع سجود میں خاموش رہنے اور کچھ نہ پڑھنے کی اجازت، رکوع جاتے وقت اور اُٹھتے وقت رفع یدین کی ممانعت، اطمینان کے بغیر نماز درست قراردینا سلام پھیرنے کے بغیر ہی نماز سے فارغ ہوجانا وغیرہ۔
ان ہی خود ساختہ طریقوں میں سے ایک ایجاد یہ ہے کہ قیام کی حالت میں مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے، حالانکہ مرد کےلیے ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا کسی بھی صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ بلکہ کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام کی حالت میں ناف سےاوپر
|