Maktaba Wahhabi

504 - 896
اور سینے پر ہاتھ باندھتے تھے اس لیے ہرمسلمان کو خواہ مرد ہو یا عورت نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ چونکہ یہ حضرات جانتے تھے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اس لیے انہوں نے اسے رائج کرنے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے۔ کبھی یہ کہا کہ جس طرح ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایت ثابت نہیں اسی طرح سینے پر ہاتھ باندھنے کی بھی ثابت نہیں۔ حالانکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی متعدد صحیح احادیث موجود ہیں۔ کبھی یہ کہا ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کی صحیح حدیث موجود ہے اور اس کے لیے اتنی زبردست خیانت کی کہ کراچی کے ایک ادارے نے مصنف ابن ابی شیبہ شائع کرتے ہوئے ایک صحیح سند والی روایت کے ساتھ تحت السرہ (زیر ناف) کے الفاظ بڑھادئیے۔ اس کشمکش میں یہ حضرات یہ بھی بھول گئے کہ جب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ نہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی کوئی حدیث صحیح ہے نہ ناف سے نیچے باندھنے کی تو ان کا یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے کی صحیح حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہے۔ اور نہ ہی انہیں یہ خیال رہا کہ جب ان کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے اور نہ ناف سے نیچے تو ان کو کس نے حق دیا کہ وہ اپنے پاس سے مردوں کے لیے زیر ناف اور عورتوں کے لیے سینے کے اوپر ہاتھ باندھنا مقرر کریں یہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقرر کر سکتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کیا تو بعد میں کسی کو یہ مقرر کرنے کا حق دینا تو اسے نبی کے مقام پر فائز کرنا ہے پھر تاج و تخت ختم نبوت کے تحفظ کا کیا بنے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں نہ ہی اس چیز میں مرد عورت کا کوئی فرق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے آپ کا طریقہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا ہی ہے۔
Flag Counter