بالکل اسی طرح وہ ترمذی میں بھی ہلب کی حدیث میں”علی صدرہ اپنے سینے پر“ کے لفظ اولیں فرصت میں چھاپ دیں کیونکہ حنفی بزرگ شیخ عبدالحق دہلوی اور شیخ الاسلام صاحب محلی حوالہ دے رہے ہیں کہ ترمذی نے لفظ” علی صدرہ اپنے سینے پر“ کو روایت کیا ہے۔ آخر قاسم بن قطلوبغا وغیرہ کے حوالہ پر اتنا اعتماد اور عبدالحق دہلوی اور صاحب محلی کے حوالہ پر اتنی بداعتمادی کیوں؟اگر انہیں گوارا نہیں ہے کہ وہ”علی صدرہ“ کو ترمذی میں چھاپیں تو پھر وہ مصنف ابن ابی شیبہ میں کی ہوئی کارستانی سے فی الفور رجوع کرلیں ورنہ وہ سوچیں کہ کل اللہ تعالیٰ کی عدالت میں وہ اس تحکم وتعصب کا کیا جواب دیں گے؟ فما عذركم( يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ )
امام ابوحنیفہ کے ایک مشاہدہ کی حقیقت
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ ناف سے اوپراور سینے پر باندھا کرتے تھے اب اس کےبعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقہ کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور امام کے قول یا عمل کو اپنے سینے سے لگائے رکھے اور سینے پر ہاتھ نہ باندھے جبکہ ائمہ کرام تصریح فرماچکے ہیں کہ حدیث وسنت ملنے کی صورت میں ہماری بات چھوڑ دینا اور حدیث وسنت پر عمل کرنا مگر اس کوتقلید کی ہی برکت سمجھئے کہ حق وانصاف واضح ہوجانے کے بعد بھی مقلد حق وانصاف کے مقابلہ میں سینہ سپر اپنے امام کے قول وعمل پر فخر کرتے ہوئے یوں گویاہوتا ہے:
(ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة)
”اور ہم تو مقلد ہیں ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید واجب ہے۔ “
تقلید کی اسی برکت کی برکھا صاحب تحریر پر بھی برسی ہوئی ہے اس لیے وہ لکھتے ہیں:” احناف اس مسئلے میں ضعیف اور کمزور وغلط روایتیں چھوڑ کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
|