Maktaba Wahhabi

860 - 896
مذکور ہے کہ وہ سجدہ کے لیے جاتے وقت ہاتھوں گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھتے تھے اس موقوف روایت سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ قاضی صاحب نے یہاں فرمایا ہے کہ دیکھئے آپ صحابی کے قول و فعل کے دین میں حجت ہونے سے انکار کے باوجود یہاں صحابی کا فعل حجت ہونے سے انکار کے باوجود یہاں صحابی کا فعل حجت مان رہے ہیں۔ محترم!صحابی کایہ فعل سنت رسول اللہﷺ کے مطابق ہے اس پر عمل سنت رسول ﷺ پر عمل ہے نہ کہ صحابی کے قول وفعل کو حجت اور شریعت ماننا۔ کتاب”الاسلام اور مذہبی فرقے“جس پر قاضی صاحب نے تبصرہ لکھ کر میری طرف بھیجا تھا اس میں گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے کے لیے ایک مرفوع روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لکھی گئی ہے اور ایک صحیح بخاری سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل۔ بعض کتب حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت بھی مروی ہے مگر مصنف نے وہ درج ہی نہیں کی تھی۔ قاضی صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس حدیث کے راویوں پر جرح شروع کردی جو مصنف نے لکھی ہی نہ تھی۔ بلکہ کسی نے جوجرحیں ایک دوسری روایت پر کی تھیں انھوں نے حوالہ دئیے بغیر وہ بخاری کی روایت پر جڑدیں۔ میں نے اس پر گرفت کی کہ: ”ایک روایت کے راوی بھی معتبر ہیں، بخاری میں بھی وہ ہے آپ اس پر جرحیں نقل کرتے ہیں جن کی نہ وجہ اور علت بیان کی گئی ہے نہ ہی آپ نے حوالہ دیا ہے کہ ان ائمہ نے خاص اس حدیث کو کہاں ضعیف کہا ہے اور کیا وجہ بیان کی الخ۔ “(ایک دین ص49) الحمدللہ قاضی صاحب اس روایت پر کوئی جرح نہیں کر سکے البتہ اب یہ لکھا ہے کہ”ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل فرمایا کہ (كان إذا سجد يضع يديه قبل ركبتيه) اب معلوم ہوا کہ قاضی صاحب کی جرح ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت پر تھی جو ذکر ہی نہ کی گئی تھی۔ اور یہ بھی کھلا کہ قاضی صاحب نے وہ جرح تعلیقات آثار
Flag Counter