نےزیر تبصرہ کتاب”الاسلام اور مذہبی فرقے“ میں رفع الیدین کےثبوت کی بہت سی احادیث پڑھنے کے باوجود ان کاذکر ہی گول کردیاہے ع
حفِظْتَ شَيئًا، وغابَتْ عنك أشياءُ
آپ واضح طور پر فرمائیں کہ وہ احادیث ثابت ہی نہیں یا آپ کے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے منسوخ ہیں۔ پھر مزید اس موضوع پربات ہوگی۔ (ایک دین اور چار مذہب ص 37)
قاضی صاحب نے اس کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔ کچھ تو کہنا چاہیے تھا کہ رفع یدین کرنے کی بیسیوں احادیث آپ کے نزدیک ثابت ہی نہیں یا منسوخ ؟ یا آپ نے ویسے ہی انہیں نہ ماننے کا تہیہ کررکھا ہے؟
قاضی صاحب نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا جومطلب بیان کیا تھا میں نے اس میں تین اغلاط کی نشاندہی کی تھی دیکھئے”ایک دین ص 37“ قاضی صاحب نے صرف ایک غلطی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے دو پر سکوت فرمایا ہے گویا انہیں تسلیم ہے کہ واقعی وہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ جس غلطی کو انہوں نے درست بنانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول (أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) كا مطلب انہوں نے بیان کیا تھا۔ ”ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کے مجمع میں یہ بات کہی الخ“ میں نے اس پر لکھا کہ” صحابہ کا مجمع آپ نے کس لفظ سے نکالاہے؟ میرے سوال کی بنیاد اس بات پر تھی کہ مزعومہ روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا ہے کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں اس میں ان کے مخاطب ہمیں معلوم نہیں صرف تابعین تھے یا صرف صحابہ یا دونوں ملے جلے۔ کیونکہ اس وقت ان کے مخاطب تینوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ان کے مخاطب صحابہ ہی تھے اس روایت کے کسی لفظ سے ظاہر نہیں ہوتا جبکہ قاضی صاحب مطلب یہ بیان کررہے ہیں کہ”ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مجمع میں یہ بات کہی“ اپنی اس غلطی کو درست کرنے کے لیے قاضی صاحب نے میرے ذمے وہ
|