Maktaba Wahhabi

311 - 896
( كَانَ النَّبُّيُ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِيْ غَيْرِ جَمَاعَةٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ) ”یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے۔ “ یہ روایت(فِيْ غَيْرِ جَمَاعَةٍ)”جماعت کے بغیر“کے الفاظ کی تصریح کی وجہ سے ان لوگوں کی دلیل بن ہی نہیں سکتی جو رمضان کے باجماعت قیام کی تعداد بیس رکعت کو مسنون قراردیتے ہیں۔ علاوہ ازیں محدثین کے نزدیک یہ روایت بالا تفاق ضعیف ہے خود مولانا انو رشاہ کشمیری نے تسلیم کیا ہے: (و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق) ”یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت کی روایت ضعیف سند سے آئی ہے اور اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ “ اس حدیث کے ضعف کے اسباب شروح حدیث میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ مرفوع روایت غیر ثابت ہونے کی وجہ سے احناف کو اپنے مسلک بیس رکعت تراویح سنت موکدہ کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا بیس رکعت تراویح سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، خلفاء راشدین کی سنت ہے۔ حالانکہ بات یہ بھی غلط ہے کیونکہ موطا مالک میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اورتمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ گیارہ رکعت قیام کریں۔ اس کے مقابلے میں ایک بھی صحیح روایت ایسی نہیں جس میں یہ موجود ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری یا کسی دوسرے صحابی کو بیس رکعت کا حکم دیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی روایت ہے تو یہ کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Flag Counter