3۔ ثالثا:اہل علم کو معلوم ہےکہ اہل رائے اپنے مسلک کے دلائل ان مذکور اورغیر مذکور اہل حدیث ہی کی کتب سے پیش کرتے ہیں۔ نیز محدثین اپنے مذہب کے بظاہر خلاف احادیث کی تحسین و تصحیح بھی فرماتے ہیں جیسا کہ اس پوری بات چیت سے بھی یہ بات عیاں اور واضح ہے اور اگر معاملہ ویسا ہی ہوتا جیسا کہ علامہ عثمانی تاثر دے رہے تو پھر صورت حال اس کے برعکس ہوتی تو حضرت العلامہ شبیر احمد عثمانی کا یہ قول”شاید یہ علت ہو کہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہے“ان محدثین پر نرا بہتان ہے۔
4۔ رابعاً:اگر جواب ایسی ہی بے سروپا باتوں کا نام ہو تو پھر دوسرے بھی کہہ دیں گے”شاید شبیر احمد عثمانی اور ان کے ہمنوا دیگر حنفی بزرگ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو صرف اور صرف اس لیے صحیح یا حسن کہتے ہیں کہ یہ روایت ان کے مذہب کے موافق ہے“تو جس طر ح حنفی لوگ اس بات کو بڑی شدو مد سے بے بنیاد قراردیں گے۔ بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر علامہ شبیر احمد عثمانی کی مذکورہ بات سراسر واقع کے خلاف، محض بے بنیاد اور نری غلطی ہے۔
5۔ خامساً:اگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو صحیح یا حسن تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی وہ روایت مذکورہ محدثین اور ان کے ہمنوا دیگر اہل حدیث کے مذہب کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ تمام کے تمام رفع الیدین کو سنت سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت رکوع والے رفع الیدین کے سنت ہونے کے خلاف ہے نہ منافی جیسا کہ پہلے منقول احمد شاکر کے بیان سے واضح ہے اور آئندہ بھی اس پر روشنی ڈالی جائے گی لہٰذا حضرت عثمانی صاحب کی بات سراسر غلط اور ان مذکور محدثین کے مذہب نیز اس روایت میں تدبر نہ کرنے کا نتیجہ ہے تو قاری صاحب ان پانچ اُمور کو ذہن نشین فرما کرغور کریں کیا علامہ شبیر احمد عثمانی نے یہ بات کہی اورآپ نے ان سے نقل کی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرکر؟
|