تک بھی کہہ سکے نہ لکھ سکےخیر کوئی بات نہیں معنی بامعنی اب ہی ہمت فرماکر اس مسئلہ میں نیز اپنے دیگر مسائل مثلاً نماز کی امامت اور قرآن مجید کی تعلیم پر مال وصول کرنے میں اپنے بہت بڑے حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی نظر فرمالیں یہ میرا مشورہ ہے گرقبول افتدز ہے عزوشرف۔
قاری صاحب فرماتے ہیں ”شبیر احمد عثمانی فتح الملھم ج2ص13میں لکھتے ہیں کہ ہمیں تو ان علتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکا۔ شاید یہ علت ہو کہ یہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہے“۔ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص11)
1۔ اولاً، اگر واقعی علامہ شبیر احمد عثمانی کو ان علتوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوسکا تو بھلا اس میں ان محدثین کا کیاقصور جن کو ان علتوں کےبارے میں علم ہوگیا؟قصور تو صرف اسی کا ہے جس کو علم نہیں ہوسکا۔
(وَمَنْ عَلِمَ حجُّةٌ عَلٰى مَنْ لَّمْ يَعْلَمْ وَمَنْ حَفِظَ جحُّةٌ عَلٰى مَنْ لَّمْ يحَفْظ، قَالَ اللّٰهُ تَعَاليٰ: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ)
2۔ ثانياً، پھر حضرت العلامہ شبیر احمد عثمانی کاقول: ” شاید یہ علت ہوالخ“ ان کی طرف سےحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ضعیف، معلول اورغیر ثابت قراردینے والے حضرت عبداللہ بن مبارک، حضرت الامام احمد بن حنبل، حضرت الا مام یحییٰ بن آدم، حضرت الامام بخاری، حضرت الامام ابوداود، حضرت الامام ابوحاتم رازی، حضرت الامام دارقطنی، حضرت الامام ابن حبان، حضرت الامام دارمی، حضرت الامام بیہقی رحمۃ اللہ علیہم اور دیگر کئی ایک محدثین کی نیت اور دیانت پر بڑا گھناؤنا حملہ ہے جس کی ان بے چاروں کے پاس کوئی ایک دلیل بھی نہیں جیسا کہ ان کا اپنا ہی لفظ”شاید“بتا رہا ہے۔ اگر اس بات کی کوئی دلیل ان کے پاس ہوتی تو وہ ہر گز”شاید“کالفظ استعمال نہ فرماتے۔
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ) الخ
|