(صححه ابن القطان)کو دہرانے کی جرات تک بھی نہیں کی اور جو کچھ انھوں نے لکھا ہے اس سے ایک حرف بھی بلا استثناء (صححه ابن القطان)کے درست ہونے پر دلالت نہیں کرتا تو بلا شبہ صاحب عف شذی کا بلا استثناء (وصححه ابن القطان)لکھنا ابن القطان پر بہتان ہے۔ توقاری صاحب ذرا توجہ فرمائیں کہ دوسروں کی طرف غلط باتیں کون منسوب کر رہا ہے؟پھر کسی کی طرف منسوب کی ہوئی غلط بات کو بلا تحقیق کون نقل کر رہا ہے؟
2۔ ثانیاً:قاری صاحب کا قول”امام وکیع جب ثقہ ہیں تو ثقہ کی زیادت قابل اعتبار ہے“محل نظر ہے کیونکہ جملہ(ثُمَّ لَا يَعُودُ)حضرت وکیع بن جراح کی زیادت کے باب سے نہیں بلکہ ان کے ادراج کے باب سے ہے جیسا کہ ابن القطان کی درایہ میں نقل کردہ عبارت (فقد قالوا : إن وكيعا كان يقولها من قبل نفسه) سے واضح ہے رہا حضرت سفیان کے کچھ دوسرے شاگردوں کا بھی اس جملہ کو ذکر کرنا تو وہ وکیع کے ادراج کی نفی کرتا ہے نہ ہی وہ اس کے منافی ہے۔
3۔ ثالثاً: چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ جملہ (ثُمَّ لَا يَعُودُ)حضرت وکیع کی زیادت کے باب سے ہی ہے لیکن ثقہ کی زیادت کا مقبول ہونا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں چنانچہ اُصول حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے تو قاری صاحب کا فرمانا ”ثقہ کی زیادت قابل اعتبار ہے“علی الاطلاق درست نہیں۔
4۔ رابعاً: قاری صاحب کا قول”نیز انھوں نے الخ“بھی نادرست ہے کیونکہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ جملہ(ثُمَّ لَا يَعُودُ) وکیع صاحب کا ادراج ہے لہٰذا ان کا عمل اس روایت پر عمل نہ رہا۔
5۔ خامساً:قاری صاحب نے حضرت وکیع کے اس روایت کو صحیح سمجھنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی لہٰذا دعویٰ بلا دلیل خارج۔
6۔ سادساً: اگر قاری صاحب فرمائیں کہ حضرت وکیع کا اس روایت کے موافق عمل
|