کرنا ان کے اس روایت کو صحیح سمجھنے کی دلیل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حضرت وکیع کا عمل اس روایت پر عمل نہیں تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ ان کا عمل اس روایت پر ہی عمل ہے لیکن کسی امام یا راوی کے عمل یا قول کا کسی روایت کے موافق ہونا اس روایت کے اس امام یا راوی کے عمل یا قول کا کسی روایت کے موافق ہونا اس روایت کے اس امام یا راوی کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل نہیں جیساکہ علوم الحدیث لا بن الصلاح، تدریب الراوی اور دیگر کتب اُصول حدیث میں لکھا ہے تو چار چاند والی بات کا حال بھی آپ نے ملا حظہ فرما لیا۔
7۔ سابعاً: قاری صاحب کا قول”امام وکیع اس زیادت کے نقل کرنے میں متفرد نہیں الخ“بھی محل نظر ہے کیونکہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ یہ وکیع کا ادراج ہے نہ کہ ان کی زیادت اور قاری صاحب کا یہ قول زیادت وکیع پر مبنی ہے تو جب بنیاد ہی ثابت نہیں تو اس پر دیوار کیسے تعمیر ہو باقی ابن مبارک وغیرہ کا اس جملہ کو ذکر کرنا ادراج وکیع کے منافی نہیں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے۔
8۔ ثامناً: جوابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ جملہ (ثُمَّ لَا يَعُودُ)نقل کرتے ہیں وہی ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (لَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ ) بھی تو فرماتے ہیں تو ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا (ثُمَّ لَا يَعُودُ)کو نقل کرنا تو اس کے ان کے اپنے ہاں ثابت ہونے کی بھی دلیل نہیں چہ جائیکہ ان کا یہ نقل کرنا کسی دوسرے کے ہاں اس کے ثابت ہونے کی دلیل ہو جبکہ ان کا (لَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍالخ ) فرمانا اس روایت کے ان کے ہاں ثابت نہ ہونے کی دلیل ہے۔
9۔ تاسعاً: ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ جملہ (ثُمَّ لَا يَعُودُ) وکیع کی زیادت ہے اور وہ اسے بیان کرنے میں متفرد بھی نہیں لیکن ان سے اوپر والے راوی حضرت سفیان ثوری تو اس کو بیان کرنے میں متفرد ہیں۔ پھر امام بخاری، امام ابو حاتم اور دیگر اہل علم اس کو حضرت سفیان ثوری کا وہم بھی قرار دے چکے ہیں۔
|