رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) بھی موجود ہیں جن کا معنی ہے”کیا ہے مجھے یا میرے لیے دیکھتا ہوں میں تمھیں اپنے ہاتھ اُٹھانے والے“اور واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رفع الیدین خود کیا کرتے تھے اور جو رفع الیدین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے اتباع میں کیاکرتے تھے وہ رفع الیدین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہی تھا پھر اس رفع الیدین سے متعلق مَالِي أَرَاكُمْ الخ کیونکر فرماسکتے ہیں لہٰذا اس روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع جاتے اور اس سےسراٹھاتے وقت رفع الیدین کے نسخ پر استدلال غلط ہے۔ (میرا رقعہ نمبر 1 ص 9)
میرے اس پہلے جواب کی تردید میں قاری صاحب نے ایک حرف بھی نہیں لکھا آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ قاری صاحب نے خواہ مخواہ میرے ذمہ یہ بات لگائی کہ توحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکی مسند حمیدی والی روایت کوصحیح سمجھتا ہے حالانکہ میں نے اپنے ہی رقعہ میں اس کے قابل احتجاج نہ ہونے کی تصریح کردی تھی تو مجھے بھی اس مقام پر ان کے اس طرز عمل کےپیش نظریہ کہنے کا حق ہے کہ قاری صاحب نے میرے اس پہلے جواب کے صحیح ہونے کوتسلیم فرمالیا ہے ورنہ وہ اس کی تردید وتغلیط میں کوئی نہ کوئی لفظ توضروربولتےصرف ان کافرمادینا”اس تفصیل میں دوتین باتیں خاص ہیں جو کہ قابل جواب ہیں“ اس پہلے جواب کا رد ہے نہ کسی دوسرے جواب کایہ تو صرف قاری صاحب کے منہ کی بات ہے بندہ کے چھ کے چھ جواب ٹھوس، مضبوط اورمحکم ہیں جن میں سے کسی ایک کارد بھی قاری صاحب کے پاس موجود نہیں صرف ان کے منہ کی باتیں ہیں چنانچہ آپ پہلے ملاحظہ فرماچکے ہیں اورآئندہ بھی ملاحظہ فرمالیں گے دیکھئے۔ اگر میں صرف منہ ہی سے کہہ دوں کہ”قاری صاحب کی کوئی بات بھی قابل جواب نہیں، اور اس پر کوئی دلیل قائم نہ کروں تو کیا یہ ان کی باتوں کا جواب یا رد ہوجائےگا؟نہیں ہرگز نہیں تو پھر قاری صاحب کامیری کسی بات سے متعلق صرف منہ سے ہی اشارہ فرمادینا کہ وہ قابل جواب نہیں پھر اس پر کوئی
|