آپ پیش کر سکتے ہیں اورنہ ہی اور کوئی غیر مقلدین قیامت تک“(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص3) ان شاء اللہ العزیز کہہ کر اتنی بڑی غلط بیانی قاری صاحب جیسوں ہی کاکام ہے۔ جناب آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ تین مقامات(دعوائے نسخ رفع الیدین، ہمیشگی والے سوال اور سنت مؤکدہ والے سوال) میں جب آپ نے خود رفع الیدین کرنے کی حدیث کے موجود ہونے کا اعتراف واقرار فرما لیا ہوا ہے تو پھر آپ کی یہ بڑ واقع کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے؟
اگر قاری صاحب کی طرف سے کہا جائے کہ” ان کا مطالبہ اور طعنہ دونوں ہی سنت ِ مؤکدہ اور ہمیشگی والی حدیث کے ساتھ مخصوص ہیں“تو اس کا جواب یہ ہے کہ قاری صاحب خود ہی اپنے اس پانچویں رُقعہ میں لکھتے ہیں“ اورتم ہو رفع الیدین کے قائل اور مدعی اوردلیل جو ہوتی ہے اُصول کے لحاظ سے مدعی کے ذمہ ہے نہ کہ مدعی علیہ پر اس بناء پر میں نےآپ کو چیلنج دیاتھا کہ کوئی حدیث پیش کردیں الخ میں رفع الیدین شروع کردوں گا لیکن آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی“ الخ[1] (قاری صاحب کارقعہ نمبر 5 ص، 1، 3)
دیکھئے قاری صاحب نے اپنے اس بیان میں مجھے رفع الیدین کا قائل اورمدعی کہا۔ پھر بندہ پہلے تصریح کرچکا ہے کہ رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت غیر منسوخہ ہے نیز تصریح کرچکا ہے کہ سنت غیر موکدہ پر بھی عمل کیا جاتا ہے اور اس پر عمل کرنے سے بھی انسان کو اجر وثواب ملتا ہے لہٰذا مندرجہ بالا تخصیص ایک علمی موشگافی تو ہوسکتی ہے باقی عمل کرنے یا نہ کرنے میں اس کا کوئی دخل نہیں کیونکہ سنت موکدہ پر بھی عمل کیاجاتا ہے اور سنت غیر موکدہ پر بھی۔ تو اگر قاری صاحب مخلص ہوں تو انہیں آج ہی سےرفع الیدین کرنا شروع کردینا چاہیے کیونکہ وہ اپنے سنت موکدہ والے سوال میں اس کا سنت غیر موکدہ ہونا تو تسلیم فرما ہی چکے ہیں۔ لہٰذا
|