حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تہذیب السنن میں لکھتے ہیں:
(وضعفه الدارمي والدارقطني والبيهقي)
اور اس روایت کو امام دارمی، امام دارقطنی، اورامام بیہقی نے ضعیف کہا۔
نیز مرعاۃ المفاتیح میں ہے:
(وقال البزار : لا يثبت ولا يحتج بمثله . وقال ابن عبد البر: هو من آثار معلولة ضعيفة عند أهل العلم) (ج 2ص323)
حافظ بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ وہ ثابت نہیں اور نہ ہی اس جیسی روایات سے دلیل پکڑی جا سکتی ہے اور حافظ عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ اہل علم کے نزدیک معلول اور ضعیف روایات سے ہے۔
تو محترم اس روایت کو غیر ثابت قرار دینے والے بہت سے محد ثین میں سے یہ بارہ امام یاد رکھیے۔
امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید عبداللہ بن مبارک(2)حضرت امام احمد بن حنبل(3)حضرت امام احمد بن حنبل کے شیخ حضرت یحییٰ بن آدم(4)حضرت امام بخاری (5) امام ابو داؤد (6)امام ابو حاتم (7)حافظ دارقطنی(8)حافظ ابن حبان(9)امام دارمی(10)امام بیہقی(11)حافظ بزار(12)اور حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہم۔
ان کے مقابلے میں دو شخص آپ نے ذکر فرمائے ہیں (1) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (2) ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حدیث کو حسن کہنے کا تو کوئی اعتبار ہی نہیں کیونکہ وہ حدیث ضعیف کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں۔ اگر آپ کو انکار ہو تو لکھیں میں ان شاء اللہ العزیز باحوالہ تفصیل لکھ دوں گا۔ امام ترمذی کا حدیث کو حسن کہنے میں تساہل محدثین کے ہاں مشہور ہے اور جب اتنے بڑے بڑے محدثین کے مقابلہ میں حسن کہیں تو خود ہی اندازہ لگالیں۔
|