Maktaba Wahhabi

570 - 896
نیز وہی لکھتے ہیں: (ذكر الطحاوى بعد روايته عن على لم يكن على يرى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم يرفع، ثم يتركه، إلا وقد ثبت عنده نسخه انتھی وفيه نظر، فقد يجوز أن يكون ترك علي، وكذا ترك ابن مسعود، وترك غيرهما من الصحابة فيه إن ثبت عنهم لأنهم لم يروا الرفع سنة مؤكدة، يلزم الأخذ بها، ولا ينحصر ذلك النسخ بل لا يجترء بنسخ أمر ثابت عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بمجرد حسن الظن بالصحابي مع إمكان الجمع بين فعل الرسول وفعله) اھ (ص89 حاشیہ 11) نیز لکھنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہی تحریر فرماتے ہیں: (ولا إلى دعوى النسخ ما لم يثبت ذلك بنص عن الشارع) (ص 91 حاشیہ 5) تو ان مندرجہ بالا عبارات میں حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمادی ہے کہ منسوخیت رفع الیدین والا دعویٰ درست نہیں۔ 2۔ حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب”نیل الفرقدین“ میں تحریر فرماتے ہیں: (إن الرفع متواتر إسناداً وعملاً ولا يشك فيه، ولم ينسخ ولا حرف منه) (ص 22) رفع الیدین سند اور عمل کے لحاظ سے متواتر ہے، اس میں شک نہیں کیا جاتا، وہ منسوخ بھی نہیں اورنہ ہی اس کا کوئی حرف منسوخ ہے۔ 3۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دینوری حنفی ترمذی کی شرح معارف السنن میں اپنے استاذ گرامی کی مندرجہ بالا عبارت نقل فرما کر کوئی ایک لفظ بھی اس کی تردید میں نہیں بولتے اور ان کے اسلوب بیان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے استاذ
Flag Counter