ہیں“ اور واضح ہے کہ جو رفع الیدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کااپنا معمول ہے اور جو رفع الیدین آپ کے اتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول ہے اس رفع الیدین کے متعلق آپ کا یہ الفاظ استعمال فرمانا محال ہے لہٰذا اس روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے معمول رفع الیدین کے نسخ پر استدلال ناقابل التفات ہے۔
3۔ ثالثاً اس لیے کہ نماز رکعت میں رفع الیدین بھی(كأنَّها أذنابُ الخيلِ الشُّمْسِ) کا مصداق ہے کیونکہ قاعدہ ہے(العبرة بعموم اللفظ) الخ، تو جیسے اس وتروں والے رفع الیدین کو اس روایت سے منسوخ نہیں کیا گیا ویسے ہی رکوع جاتے اوراس سےسراُٹھاتے وقت رفع الیدین کو بھی اس کی مثبت احادیث کی بنا پر منسوخ قرارنہیں دیاجاسکتا۔
4۔ رابعاً اس لیے کہ قاری صاحب کے اس روایت سے رفع الیدین کے نسخ پر استدلال کی بنیاد (رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) میں رکوع جاتے اور اس سے سراُٹھاتے وقت رفع الیدین مراد ہونے پر ہے مگر ابھی تک انہوں نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں فرمائی لہٰذا ان کا اس روایت سے اس رفع الیدین کے نسخ پر استدلال صحیح نہیں۔ باقی(كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) الخ اور (خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) الخ کے اس واقعہ کےدو دفعہ رُونما ہونے پر دلالت سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں موقعوں پر رفع الیدین جدا جدا ہو(مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ البَيَانُ) بصورت تسلیم اتنی چیز سامنے آئے گی کہ خَرَجَ عَلَيْنَا والے واقعہ میں رفع الیدین عندالسلام مراد نہیں مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوگا کہ اس سےرکوع والا رفع الیدین مراد ہے؟وَ مَنِ ادَّعَى فَعَلَيْهِ الْبُرْهَانُ
5۔ خامساً اس لیے کہ قیام سے رکوع میں جانا، رکوع سے سراُٹھانا، قومہ سے سجدہ میں
|