2۔ عشاء کے بعد رات کے اول حصہ میں اس نماز کی ادائیگی۔
3۔ بیس رکعت کی پابندی۔
اب یہ استدلال ہر ذی فہم پر واضح ہے کہ مذکورہ بالا روایات نے محدثین کو ایسا یقین بخشا کہ ان کو لفظ بدعت کے مفہوم میں بیس کے عدد کو بھی شامل کرنا پڑا محدثین کی عبارات حسب ذیل ملاحظہ ہوں:
(لأن النبی صلى اللّٰه عليه وسلم لم يسن لها الاجتماع لها ولا أول الليل ولا كل ليلة ولا هذا العدد) (قسطلاني)
(وزادت الصَّحَابَة وَمن بعدهمْ فِي قيام رَمَضَان ثَلَاثَة أَشْيَاء: الِاجْتِمَاع لَهُ فِي مَسَاجِدهمْ، وأداؤه فِي أول اللَّيْل مَعَ القول بأن صلاة آخر الليل مشهودة وعدده عشرون ركعة) (حجة اللّٰه البالغة ص 16)
” کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کے لیے نہ اکٹھے ہوکر پڑھنے کا طریقہ مقرر فرمایا، نہ رات کے شروع میں پڑھنے کا، نہ رات پڑھنے کا اور نہ ہی اس تعداد میں پڑھنے کا (قسطلانی) صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قیام رمضان میں تین چیزوں کا اضافہ فرمایا اس کے لیے اپنی مساجد میں جمع ہونا اوریہ کہنے کے باوجود کہ ”پچھلی رات کی نماز حضوری ہوتی ہے“ رات کی ابتداء میں نماز ادا کرنا اور اس کی تعداد بیس رکعت ادا کرنا۔ “(حجۃ البالغہ ص16)
1۔ اولاً:تو جس قدر وہ روایات ہیں جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقولہ(ِنِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِیانِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ) ذکر کیا گیا ہے ان میں عدد رکعات کا سرے سے ذکر ہی نہیں جب کہ صحیح اثر سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا اور صحیح اثر سے یہ بھی ثابت ہے کہ لوگ زمانہ عمر رضی اللہ عنہ میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے تیرہ والے اثر سے متعلق علامہ شوق صاحب نیموی فرماتے ہیں کہ ان میں عشاء کے بعد والی دورکعت شامل ہیں تو جب
|