سولہ ہیں متد اول نسخہ میں نہیں تو کیا بات ہوئی البتہ اس میں اتنی بات ہے کہ جب مؤطا کا حوالہ بلاقید نسخہ دیا جائے تو اس سے مؤطا امام مالک کا متد اول نسخہ ہی مراد ہوتا ہے۔ باقی مصنف ابن ابی شیبہ بندہ کے پاس نہیں اس لیے مؤلف صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اس اثر کی بھی سند بیان فرمادیں۔
5۔ وخامساً :صاحب رسالہ حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
(سبل السلام ص 337 جلد اول ما َ نَصُّه وَسَاقَ رِوَايَاتٍ اَنَّ عُمَرَ اَمَرَاُبَيَّا وَ تَمِيمَانِ الدَّارِيَّ يَقُومَانِ بِالنَّاسِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً) (ص 15)
” سبل السلام ص 337 جلد اول کے لفظ یہ ہیں:اور کئی روایات ذکر کیں کہ عمررضی اللہ عنہ نے ابی اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ بیس رکعت قیام کریں“۔
ان روایات سے کچھ تو حضرت المؤلف بحوالہ بیہقی پہلے بیان فرماچکے ہیں اور کچھ آئندہ بیان فرمائیں گے اورا گر ان کے علاوہ کوئی روایت ہوتو اس کی نشاندہی فرمائیں، نیز سبل السلام کی اس عبارت پر تفصیلی گفتگو آگے آرہی ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق صاحب رسالہ نے جتنے آثار اس سے قبل بیان فرمائے ان کا تو حال بیان کردیا گیا ہے۔
6۔ وسادساً:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سنت وہ عمل ہوگا جس پر انہوں نے مواظبت فرمائی ہو یا کم از کم اس کے کرنے کا حکم صادر فرمایا ہو بیس رکعات نماز تراویح پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مواظبت تو درکنار ان سے تو ساری زندگی میں ایک دفعہ بھی بیس تراویح پڑھنا ثابت نہیں اور نہ ہی بیس کا حکم دینا ان سے ثابت ہے صاحب رسالہ نے جس قدر آثار ذکر کیے ہیں ان میں صرف یہی بتایا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لو گ بیس رکعت پڑھتے تھے پھر ایسے آثار کا حال پہلے بیان ہوچکا ہے تو ٖظاہر بات ہے کہ اتنے سے لوگوں کے عہد فاروقی میں بیس
|