Maktaba Wahhabi

355 - 896
رہے ہیں جو نماز تراویح کو مسجد کے بجائے گھر میں، باجماعت کے بجائے اکیلے اور اول اللیل کے بجائے آخراللیل پڑھنے کو افضل جانتے تھے تحقیق کے لیے قیام اللیل للمروزی، شرح معانی الآثار للطحاوی اور سنن کبری للبیہقی ملاحظہ فرمائیں لہٰذا محمد بن کعب قرظی کے مسجد نبوی میں باجماعت نماز تراویح پڑھنے کو کوئی دلیل پیش کی جائے۔ 3۔ صاحب رسالہ فرماتے ہیں: (عَنْ أبي بن كَعْب اَنَّ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِي اللّٰه تَعَالَى عَنهُ، أَمَرَہُ اَنْ يُصَلِّي بِاللَّیْلِ فِیْ رَمَضَان اِليٰ قُوْلِهٖ فَصَلّٰي بِهِمْ عشْرين رَكْعَة) ”ابی بن کعب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان میں رات کو لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ انہوں نے انہیں بیس رکعات پڑھائیں۔ (حاشیہ س 14 میں ہے کنز العمال بحوالہ آثار السنن) مگر حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نیچے کی سند بیان نہیں کی گئی نہ ہی زیر تبصرہ رسالہ میں اور نہ ہی آثار السنن میں اصل کتاب بندہ کے پاس نہیں لہٰذا حضرت المؤلف کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس اثر کی سند بیان فرمائیں۔ 4۔ ورابعاً : مصنف صاحب لکھتے ہیں: (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي اللّٰه عنه أنَّه جَمَعَ النَّاسَ عَلٰي أبي بن كَعْب فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِیْ شَهْرِ رَمَضَان عِشْرِينَ رَكْعَةً) ” حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا چنانچہ وہ انہیں ماہ رمضان میں بیس رکعت پڑھاتے تھے“۔ (حاشیہ میں ہے مؤطا ابن ابی شیبۃ اور بیہقی بحوالہ تلخیص الجیر ص 119 المصابیح للسیوطی ص) اس اثر کو مؤطا امام مالکِ، مؤطا امام محمد اور سنن کبری للبیہقی میں تلاش کیا گیا مگر ان سہ کتب میں سے کسی ایک میں بھی نہیں پایا لیکن کہا جاسکتا ہے کہ مؤطا کے نسخے
Flag Counter