یہ درست ہے کہ حضرت قرظی کو کثیر التعدادصحابہ سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا مگر حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تو ملاقات کا شرف نصیب نہیں ہوا کیونکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی شہادت کا سنہ تیئس ہجری اور حضرت عثمان کی شہادت کا سنہ شہادت پینتیس ہجری ہے جب حضرت قرظی کا سنہ ولادت چالیس ہجری ہے اور یہ چالیس ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سنہ شہادت ہے چنانچہ تقریب ہی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھا ہے:
(مَاتَ فِي رَمَضَانَ سَنَةَ اَرْبَعِيْنَ)
تو اگر حضرت قرظی رمضان کے بعد تولد ہوئے تو پھر ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی شرف ملاقات نصیب نہ ہو اور اگر ان کی ولادت محرم میں تصور کی جائے تو پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت کوئی نو ماہ کے بچے تھے تو اس تقریر سے حضرت قرظی سے عہد علوی کے حالات سے براہ راست واقف ہونے اور نہ ہونے پر بھی روشنی پڑتی ہے فتدبر۔
صاحب رسالہ کا قول”جنھوں نے اپنی آنکھوں سے اس واقعہ کو دیکھا“ میں یہ چیز ہے کہ ان کے اس واقعہ کو دیکھنے ور اس واقعہ کے اثبات کی بنیاد اس سے قبل رسالہ میں مذکور آثار پر ہی رکھی گئی ہے جن کا حال آپ کو معلوم ہوچکا ہے پھر مصنف صاحب کا قول”اور سالہا سال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز تراویح ادا کرنے کا موقع ملنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے فی الواقع اس کیفیت سے نماز تراویح ادا بھی کی ہو اور اگر حضرت المؤلف اپنے اس قول کامطلب یہ سمجھتے ہوں کہ فی الواقع حضرت القرظی نے مذکورہ کیفیت سے نماز تراویح اداکی تو اس کی دلیل درکار ہے جورسالہ میں پیش نہیں کی گئی رہا حضرت القرظی کا عہد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں مدینہ منورہ کے اندر رہنا تو وہ مدعا مذکور کی دلیل نہیں کیونکہ اسلاف کے اندر ایسے لوگ
|