واسطہ فی الثبوت کی نفی کی ہے وہ ہے جو سفیر محض کے مقابلے میں ہے نہ وہ جس کی ایک قسم واسطہ سفیریہ ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ واسطہ فی الثبوت کا لفظ اس واسطہ پر بھی بولا جاتا ہے جس کی ایک قسم سفیریہ ہے اور اس پر بھی بولا جاتا ہے جو سفیریہ کے مقابلے میں ہے۔ اس کے باوجود قاضی صاحب فرما رہے ہیں کہ میں نے اس واسطہ فی الثبوت کی نفی کی ہے جو عام ہے اس سے خاص کی نفی بھی ہو گی۔ حالانکہ میں نے عام کی نفی کی ہی نہیں صرف خاص کی نفی کی ہے کیونکہ اس کو بھی اصطلاح میں واسطہ فی الثبوت کہتے ہیں اور اس کا واضح قرینہ یہ ہے کہ میں نے اس کی نفی سفیر محض کے مقابلے میں کی ہے۔
لیکن اگر قاضی صاحب اصرار فرمائیں کہ واسطہ فی الثبوت کا لفظ صرف عام پر ہی بولا جاتا ہے خاص پر نہیں بولا جاتا تو اگرچہ یہ بات غلط ہے تاہم اس صورت میں بھی قاضی صاحب کا اعتراض غلط ہے۔ کیونکہ بعض اوقات عام لفظ بول کر اس کی نفی کر دی جاتی ہے۔ مگر مراد اس کے کسی خاص فرد کی نفی ہوتی ہے نہ کہ عام کے تمام افراد کی، بشرطیکہ اس بات کی کوئی دلیل موجود ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
(الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مستحقین امن اور اصحاب ہدایت ان لوگوں کو قراردیا ہے جن کے ایمان میں ظلم کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ یہاں لفظ میں اگرچہ ظلم کی ہر آمیزش کی نفی کی گئی ہے مگر اس مقام پر ظلم کا صرف ایک فرد شرک مراد ہے نہ کہ ظلم کا ہر فرد۔ کیونکہ اس بات کی دلیل موجود ہے۔ اسی طرح میں نے جو واسطہ فی الثبوت کی نفی کی ہے اس سے مراد عام نہیں بلکہ اس کا صرف ایک فرد ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ میں نے خود ہی اس کے دوسرےفرد واسطہ سفیریہ کا اثبات کیا ہے۔
اس کے بعد قاضی صاحب نے حسب عادت ایک رات اپنے پاس سے گھڑ کر میرے ذمے لگائی ہے اور اس پر ایک بیوقوف طالب علم کی انڈوں والی مثال منطبق
|