وہی ہے جسے اہل علم حد اوسط کے نام سے پہچانتے ہیں جو صغریٰ کبریٰ دونوں میں پایا جاتا ہےاور اس کو دونوں قضیوں سے حذف کردیں تو نتیجہ نکل آتا ہے۔ یہ واسطہ قضایا میں ہوتا ہے۔ مفردات میں ہوتا ہی نہیں۔ اب غور کیجئے کہ پیغام پہنچانے والا قاضی صاحب کے اور میرے درمیان واسطہ فی الاثبات کس طرح بن سکتا ہے؟
علاوہ ازیں آپ کے نزدیک خالد صاحب نے پیغام پہنچانے کی صورت میں واسطہ فی الاثبات بنناتھا۔ میں نے ثابت کردیا کہ وہ تحریر پہنچانے میں سفیر محض تھا۔ تحریر بھی تو پیغام ہے۔ اب آپ کی روسے اس واسطہ فی الاثبات ہونا چاہیے جب کہ میں نے اسے سفیر محض قراردیا اور آپ نے اس پر سکوت فرمایا۔ ثابت ہوا کہ آپ بھی پیغام پہنچانے والے کاسفیر محض ہونا اور واسطہ فی الاثبات نہ ہونا مان گئے ہیں ورنہ ضرور سفیر محض ہونے کی تردید کرتے۔
میں نے اپنی دوسری تحریر میں لکھا تھا:”بات تو صرف اتنی ہے کہ آپ نے اپنی مرضی سے ایک تحریر لکھی اور اپنی مرضی سے ہی خالد صاحب کے ہاتھ جواب کے لیے بھیج دی وہ بیچارہ نہ واسطہ فی العروض، نہ فی الثبوت، نہ فی الاثبات وہ تو تحریر پہنچانے میں سفیر محض تھا۔ “
اس پر قاضی صاحب لکھتے ہیں:”جواباً گزارش ہے کہ واسطہ فی الثبوت کی ایک قسم کا نام ہے نہ کہ واسطہ فی الثبوت سے خارج ہے اور آپ نے واسطہ سفیر یہ کو واسطہ فی الثبوت سے خارج ایک قسم بتایا ہے۔ میرے عزیز یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ واسطہ فی الثبوت کی نفی ہو اور اس کی ایک قسم سفیریہ ثابت بھی ہو۔ کیا عام اور کلی کے انتفاء سے خاص اور جزئی کی انتفاء لازم نہیں الخ۔ “
قاضی صاحب کو غور کرنا چاہیے تھا کہ جب میں نے یہ کہا کہ وہ واسطہ فی العروض بھی نہیں، واسطہ فی الثبوت بھی نہیں، اور فی الاثبات بھی نہیں اور ساتھ ہی اس کے سفیر محض ہونے کی تعیین کردی تو یہ صاف دلیل ہے اس بات کی کہ میں نے جس
|