Maktaba Wahhabi

524 - 896
اور فرمایا: (أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ) الخ کی جیتی جاگتی مثالیں تو نہیں؟پھر سوچیں عوام الناس کو کون ورغلارہا ہے؟ اور ان کو کون پریشان کررہا ہے؟ ثالثاً: شوق نیموی حنفی آثار السنن کی تعلیق میں لکھتے ہیں: (الإنصاف أن هذه الزيادة وإن كانت صحيحة لوجودها فى أكثر النسخ من المصنف، لكنها مخالفة لروايات الثقات، فكانت غير محفوظة كزيادة: (على الصدر) في رواية ابن خزيمة، ومع ذلك فيه اضطراب، كما مرّ، فالحديث وإن كان صحيحا من حيث السند لكنه ضعيف من جهة المتن، واللّٰه أعلم) ”انصاف یہ ہے کہ یہ زیادۃ”تحت السرۃ“ اگرچہ مصنف کے اکثر نسخوں میں موجود ہونے کی وجہ سے تو صحیح ہے لیکن ثقہ راویوں کی روایات کے مخالف ہے تو یہ زیادہ”تحت السرۃ“ غیر محفوظ ہے جیسا کہ ابن خزیمہ کی روایت میں زیادہ ”علی الصدر“ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں اضطراب بھی ہے جیسے کہ گزرا تو یہ حدیث اگرچہ سند کے لحاظ سے تو صحیح ہے لیکن متن کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ “ تو معلوم ہوااس”تحت السرۃ“ کے مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث وائل رضی اللہ عنہ میں موجود ہونے کو تسلیم کرلینے سے بھی زیرناف ہاتھ باندھنے والوں کی بات زیر ہی رہتی ہے زبر نہیں ہوتی کیونکہ یہ روایت بزیادۃ تحت السرۃ بہرحال ضعیف اور ناقابل قبول ہے۔ پھر صاحب تحریر کو بھی اس کے ضعیف وکمزور ہونے کا اعتراف ہےتو مقام غور ہے کہ ایک رویت کو ضعیف مانتے ہوئے عوام لناس کے سامنے سے بیان کرنا، ان کو ورغلانا اور پریشان کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟
Flag Counter