نے لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت نماز اور تین وتر پڑھتے ہوئے پایا)“
عطاء بن ابی رباح مکہ معظمہ کے رہنے والے جلیل القدر تابعی ہیں وہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کی پیدا ئش 28ھ میں ہوئی اور ان کی وفات 114ھ میں ہوئی۔ “(ص21)
حضرت المؤلف نے عطاء بن ابی رباح کا جو سنہ ولادت ذکر فرمایا اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عطاء نے نہ تو عہد صدیقی پایا، نہ ہی عہد فاروقی اور عہد عثمانی اختتام کے وقت وہ کوئی اٹھ سال کے بچے تھے اور عہد علوی کے انصرام کے وقت وہ کوئی تیرہ سال کے بچے تھے پھر حضرت عطاء کے اس اثر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جن لوگوں کو انہوں نے بیس رکعات پڑھتے پایا وہ صحابہ تھے یا تابعین پھر اس میں یہ بھی نہیں بتا یا گیا کہ وہ باجماعت پڑھتے تھےیا اکیلے اکیلے۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے:
(عن ابن جريج عن عطاء أن بعض أمرائهم - معاوية أو غيره - أراد جمع أهل مكة على قاریٍ واحد فقال مكره كرنبس لا تفعل دع الناس من شاء طاف ومن شاء صلى بصلاة القارىء) (ج4ص262۔ 263۔ ح7737)
ابن جریج سے روایت ہے وہ عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے بعض امراء حضرت معاویہ یا کسی اور نے ارادہ کیا کہ اہل مکہ کو ایک قاری پر جمع کردیں تو مکروہ کرنبس نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں لوگوں کو رہنے دیں جو چاہے طواف کرے اور جو چاہے قاری کے ساتھ نماز پڑھے تو اس امیر نے ایسا ہی کیا۔ “(ج4ص262۔ 263۔ حدیث:7737)
اس اثر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عطاء کے زمانہ اور امیر معاویہ کے دور تک اہل مکہ کو سرکاری طور پر ایک قاری کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کرنے کا پابند نہیں
|