Maktaba Wahhabi

403 - 896
کیا گیا تھا۔ تو حضرت عطاء کے مذکور بالا اثر سے اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ لوگ ان کے زمانہ میں بیس رکعات پڑھتے تھے البتہ ان کے اس اثر سے بیس رکعات کا سنت نبویہ ہونا ثابت نہیں ہوتا، نہ ہی بیس کا خلفاء راشدین کی سنت ہونا اور نہ ہی اس دور کے تمام لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا اس سے ثابت ہوتا ہے۔ حضرت المؤلف لکھتے ہیں: (حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ : كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً) ”ابو بکر بن شیبہ نے وکیع سے روایت کی انھوں نے نافع بن عمر سے کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعات نماز پڑھاتے تھے۔ “ ابن ابی ملیکہ جلیل القدر تابعی مکہ معظمہ کے رہنے والے ہیں ان کی ملاقات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوئی اب ظاہر ہے کہ خلافت راشدہ کے حالات سے یہ پورے آگاہ تھے عبد اللہ بن الزبیر کے دور میں ان کی تقریری عہدہ قضاء پر ہوئی شرح صحیح مسلم نووی ص10ان کے عمل سے اہل مکہ کے طرز عمل پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ ابن ابی ملیکہ کی وفات 117ھ میں ہوئی نیز یہ دونوں بزرگ عہد عثمانی کے آخری دور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پورے دور سے واقف ہیں لہٰذا عطاء بن ابی رباح کی روایت سے صحابہ کے تعامل پر روشنی پڑتی ہے۔ “(ص20، ص21) 1۔ اولاً: نافع بن عمر صحابی نہیں اور نہ ہی ابن ابی ملیکہ صحابی ہیں تو حضرت نافع ابن عمر کے بیان ”ابن ابی ملیکہ رمضان میں ہمیں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔ “اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اس دور میں بیس رکعات پڑھتے یا پڑھاتے تھے۔ 2۔ وثانیا: ابن ابی ملیکہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات درست اور مسلم لیکن اس ملاقات سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی بیس رکعات پڑھتے پڑھاتے تھے یا انھوں نے کسی کو بیس رکعات پڑھنے پڑھانے کا حکم دیا تھا جب کہ اسلاف کی
Flag Counter