نفل عبادت میں تفاوت وقوع پذیر ہے بلکہ واقع ہے کما تقدم وسیاتی ہاں صاحب رسالہ نے ملاقات پر لگا حاشیہ میں لکھا ہے۔ ”انہیں حضرت عثمان بن عفان کی رؤیت کا شرف نصیب ہوا“(ابو داؤد)اگر حضرت مؤلف نے اس رؤیت سے اس ملاقات کا اثبات فرمایا ہے تو پھر ان کا یہ اثبات محل نظر ہے۔
وثالثاً:یہ بھی مسلم کہ تقریباً نصف خلافت راشدہ (عہد عثمانی کے آخری دوراورعہد علوی کے پورے دور) کے حالات سے وہ آگاہ اور واقف تھے مگر ان کا بیس رکعات نوافل پڑھنا حضرت عثمان، حضرت علی اور ان کے دور کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بیس رکعات پڑھنے پڑھانے یا پڑھنے پڑھانے کا حکم دینے کی دلیل نہیں۔
ورابعا: بیس رکعات پڑھنے پڑھانے والے حضرت عبد اللہ بن ابی ملیکہ کی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دورمیں عہدہ قضاء پر تقرری حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بیس رکعات پڑھنے پڑھانےیا بیس رکعات کا حکم دینے کے لیے مثبت نہیں۔
وخامسا: حضرت عطاء بن ابی رباح اور حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ کے مذکورہ بالا دو اثر صحابہ کے بیس رکعات پڑھنے پڑھانے کی دلیل نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین کے بیس رکعات پڑھنے پڑھانے یا بیس کا حکم دینے کی دلیل ہیں اور اگر ان دوبزرگوں کی خلافت راشدہ کے تقریباً نصف دور کے حالات سے آگاہی وواقفیت ان کے عمل (بیس رکعات خلفاء راشدین کی سنت ہونے کی دلیل ہے تو پھر حضرت اسود بن یزید کے عمل چالیس رکعات کو بھی خلفاء راشدین کی سنت قراردینا ہو گا کیونکہ حضرت عطاء اور حضرت ابن ابی ملیکہ تو خلافت راشدہ کے آخری تقریباً نصف دور کے حالات سے آگاہ تھے وواقف تھے لیکن چالیس رکعات پڑھنے والے جلیل القدر بلکہ اجل القدر مخضرم تابعی حضرت اسود بن یزید تو خلافت راشدہ کے پورے دور کے حالات سے آگاہ وواقف ہی نہ تھے بلکہ انھوں
|