نے خلفاء راشدین حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ حج کرنے کی سعادت بھی حاصل کی پھر خلفاء راشدین حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے حدیث سننے پھر روایت کرنے کا شرف بھی انہیں نصیب ہوا تو بانداز مؤلف ان کا یہ عمل چالیس رکعات اس بات کی دلیل ہے کہ خلفاء راشدین نے یقیناً حضرت اسود بن یزید کو چالیس رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔
پھر چالیس رکعات پڑھنے والے جلیل القدر تابعی حضرت اسود بن یزیدنے عہد نبوی کے آخری ایام پائے مگر ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا تو ان کے چالیس رکعات پڑھنے والے اثر سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے تعامل پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
نیز انھوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےپورے دور پائے اور وہ ان دونوں کے دوروں کے حالات سے پوری طرح آگاہ بھی تھے لہٰذا ان کے اس طرز عمل سے حضرت عبد اللہ بن زبیر، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دور کے تعامل پر بھی روشنی پڑتی ہے پھر امام مالک کا بیان (يوم حره)سے قبل سے لے کر آج تک مدینہ منورہ میں اڑتیس رکعات اور وتر پر عمل ہو رہا ہے۔ “سے بھی مذکورہ بالا دلیل کی کچھ نہ کچھ تائید ہوتی ہے۔
پھرحضرت اسود بن یزید کی وفات کوفہ میں74ھ یا 75ھ میں ہوئی تو ان کے اثر سے اہل کوفہ تعامل سمجھنے میں بھی کچھ نہ کچھ مدد ملتی ہے نیز یہ بزرگ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ان اصحاب خاص میں سے تھے جو صاحب فتوی تھے تو ان کے چالیس رکعات پڑھنے سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تعامل کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
نیز ان کا یہ تعامل حضرت ابی بن کعب کے اکتالیس والے اثر (جس کی طرف جامع ترمذی میں(علي ماروي عن ابي بن كعب)کے الفاظ سے اشارہ کیا
|