گیا ہے) کے صحیح ہونے پر زور شہادت ہے۔ یاد رہے حضرت اسود بن یزید کے چالس رکعات والے اثر پر یہ ساری تقریر مصنف صاحب کے انداز پر ہے اور وہ اسے ناقابل تردید اور قوی دلائل سے شمار کرتے ہیں جیسا کہ ان کی تحریر سے ظاہر ہے ورنہ ہمارے نزدیک علمی دنیا میں ایسے دلائل کا کوئی وزن نہیں اور حضرت اسود بن یزید کا چالیس رکعات والا اثر عمدہ القاری میں موجود ہے چنانچہ آگے آرہا ہے۔
6۔ وسادسا:یہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خلفاء راشدین میں سے کسی ایک بھی خلیفہ راشد کا بیس رکعات پڑھنا پڑھانا یا بیس کا کسی کو حکم دینا ثابت نہیں تو اگر بعض صحابہ بیس رکعات پڑھتے بھی ہوں تو ان کے بیس پڑھنے سے بیس رکعات کا سنت نبوی ہونا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے بیس پڑھنے سے بیس کا خلفاء راشدین کی سنت ہونا ثابت ہوتا ہے۔
حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں:"محولہ بالا آثار کے صحیح ہونے کی ایک پر زور شہادت یہ بھی ہے کہ فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی نے(سنن ترمذی کے مصنف) ترمذی میں فرمایا ہے کہ:
(وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً .)
”اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے جو حضرت علی اور عمر رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم سے روایت کیا گیا ہے یعنی بیس رکعت اور یہی قول سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک اور شافعی کا ہے اور اسی طرح میں نے اپنے شہر مکہ میں پایا کہ لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ “
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے صحت و سقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی اور امام ترمذی جیسے جلیل القدر ائمہ حدیث کو زیادہ
|