حاصل ہے یا عصر حاضر کے ان حضرات کو جوان کی نسبت طفل مکتب ہیں؟ ؎
سَتُبْدِي لَكَ الأيَّامُ مَا كُنْتَ جَاهِـلاً
ويَأْتِيْـكَ بِالأَخْبَـارِ مَنْ لَمْ تُـزَوِّدِ (ص21)
”عنقریب زمانہ تیرے لیے وہ چیز یں ظاہر کردے گا جس سے تو واقف نہ تھا اور ایسے ایسے لوگ آکر تجھے خبریں بتائیں گے جنہیں تو نے زادراہ دے کر نہیں بھیجا۔ “
1۔ اولاً: اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث کے مسلم الامامۃ جلیل القدر امام ہیں مگر ان کا قول (وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا الخ)محولا بالا آثار کے صحیح ہونے کی شہادت ہے نہ حسن ہونے کی صحیح ہونے کی پرزور شہادت ہونا تو دور کی بات ہے کیونکہ اصول حدیث کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی امام حدیث کا کسی حدیث یا اثر کو روایت کرنا اس حدیث یا اثر کے صحیح یا حسن ہونے کی شہادت نہیں الایہ کہ وہ امام حدیث فرماد یں کہ جس حدیث یا اثر کو وہ روایت کریں وہ حدیث یا اثر ان کے نزدیک صحیح ہوتا ہے یا حسن اور ظاہر ہے کہ امام ترمذی نے جامع ترمذی کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جب کہ عالم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے محولا آثار کو انھوں نے اپنی کتاب جامع میں روایت بھی نہیں کیا صرف اتنے لفظ بولے ہیں۔ ( عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا)اگر انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے محولا آثار کو جامع ترمذی میں روایت کیا ہوتا تو پھر حضرت المؤلف، صاحب آثار السنن اور دیگر علماء کرام کو ان محولہ بالا آثار کا حوالہ دینے کے سلسلہ میں فن حدیث کے مسلم الثبوت امام کی تالیف کردہ صحاح ستہ کی معتبر و مستند کتاب جامع ترمذی چھوڑ کر سنن کبری، کتاب المعرفۃ للبیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق اور قیام اللیل للمروزی ایسی کتابوں کے نام لینے کی کیا ضرورت تھی؟
|