2۔ وثانیا:امام ترمذی اپنی کتاب میں فی الباب کہہ کر ایک مضمون کی کئی احادیث کی طرف اشارہ فرما دیتے ہیں مثلاً باب رفع الیدین عند الرکوع میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں:
(وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، وَجَابِرٍ، وَعُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ.)
”اور اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابو ہریرہ، ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابو قتادہ، ابو موسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی کی احادیث موجود ہیں۔ “
تو اب عالم تو عالم کوئی طفل مکتب فن حدیث بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ ان چودہ صحابہ کی احادیث در باب رفع الیدین کے صحیح ہونے کی ایک پر زور شہادت یہ بھی ہے کہ فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی نے جامع ترمذی میں فرمایا ہے: (وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الخ) البتہ جو حضرات گرامی امام ترمذی کے قول (عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا) کو حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے محولا آثاردر باب تراویح کے صحیح ہونے کی پر زور شہادت قراردیتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ امام ترمذی ہی کے قول (وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ) کو بھی ان چودہ صحابہ کی احادیث درباب رفع الیدین کے صحیح ہونے کی پرزور شہادت قرار دیں۔ کیونکہ امام صاحب اس مقام پر بھی یہی فرما رہے ہیں کہ رفع الیدین کی احادیث ان چودہ صحابہ سے بھی مروی ہیں جیسے کہ باب قیام رمضان میں انھوں نے فرمایا کہ بیس رکعات کے آثار حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم سے مروی ہیں اور ان کے ایک قول کو صحت کی پرزور شہادت قراردینا اور دوسرےقول کو صحت کی پرزور
|