Maktaba Wahhabi

409 - 896
شہادت قرارنہ دینا انصاف نہیں۔ اگر کوئی فرمائیں کہ باب قیام رمضان میں تو امام صاحب نے اکثر اہل علم کا قول بھی نقل فرمایا ہے تو ان صاحب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر اہل علم یا اقل اہل علم کا قول و مذہب کسی حدیث و اثر کے صحیح یا ضعیف ہونے کی شہادت نہیں کما سیاتی پھر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اکثر اہل علم کا قول و مذہب تو بیان فرمایا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کا اپنا قول و مذہب کیا تھا؟ آیا وہ خود اکثر اہل علم کے قول و مذہب پر تھے یا اسحاق بن راہویہ اور اہل مدینہ منورہ کے قول و مذہب اکتالیس رکعات پر تھے؟ 3۔ وثالثا: امام ترمذی ہی فرماتے ہیں: ( وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ) ”اہل علم نے قیام رمضان کے متعلق اختلاف فرمایا ہے بعض کا خیال ہے کہ وتر سمیت اکتالیس رکعت پڑھے یہ اہل مدینہ کا قول ہے اور ان کے ہاں اسی پر عمل ہے۔ نیز فرماتے ہیں: (وَقَالَ اِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إحْدٰى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً على مَا رُوِيَ عَنْ أبي بْنِ كَعْبٍ) ”اوراسحاق نے کہا بلکہ ہم اکتالیس رکعت کو پسند کرتے ہیں جیسا کہ ابی بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔ “ اور علامہ عینی امام ترمذی کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: (ذكر ابْن عبد الْبر فِي ( الاستذكار) : عَن الْأسود بن يزِيد كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعِينَ رَكْعَة، ويوتر بِسبع، هَكَذَا ذكره، وَلم يقل: إِن الْوتر من
Flag Counter