Maktaba Wahhabi

410 - 896
الْأَرْبَعين. وَقيل: ثَمَان وَثَلَاثُونَ، رَوَاهُ مُحَمَّد بن نصر من طَرِيق ابْن أَيمن عَن مَالك. قَالَ: يسْتَحبّ أَن يقوم النَّاس فِي رَمَضَان بثمان وَثَلَاثِينَ رَكْعَة، ثمَّ يسلم الإِمَام وَالنَّاس، ثمَّ يُوتر بهم بِوَاحِدَة. قَالَ: وَهَذَا الْعَمَل بِالْمَدِينَةِ قبل الْحرَّة مُنْذُ بضع وَمِائَة سنة إِلَى الْيَوْم، هٰکَذَا روى ابْن أَيمن عَن مَالك، وَكَأَنَّهُ جمع رَكْعَتَيْنِ من الْوتر مَعَ قيام رَمَضَان وسماها من قيام رَمَضَان، وإلاَّ فَالْمَشْهُور عَن مَالك سِتّ وَثَلَاثُونَ وَالْوتر بِثَلَاث، وَالْعدَد وَاحِد.) (عمدة القاري ج5ص356۔ 357) ”ابن عبدالبر نے استذکار میں ذکر کیا ہے کہ اسود بن یزید چالیس رکعت پڑھتے تھے اور سات وتر پڑھتے تھے انھوں نے اسی طرح ذکر کیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ وتر چالیس میں شامل تھے۔ بعض نے کہا کہ اڑتیس رکعات پڑھے اسے محمد بن نصر نے ابن ایمن کے طریق سے مالک سے ذکر فرمایا کہ انھوں نے فرمایا کہ مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان میں اڑتیس رکعات قیام کریں پھر امام اور لوگ سلام پھیردیں۔ پھر امام انہیں ایک رکعت وتر پڑھائے اور یہ عمل مدینہ میں حرہ سے پہلے سے لے کر آج تک ایک سو کئی برس سے آرہا ہے۔ ابن ایمن نے مالک سے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے وتر میں سے دو رکعتیں قیام رمضان کے ساتھ شامل کردی ہیں اور ان کا نام قیام رمضان رکھ دیا ہے ورنہ امام مالک کا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ چھتیں رکعتیں اور تین وتر پڑھے جائیں۔ دونوں صورتوں میں کل تعداد ایک ہے۔ “( عمدۃ القاری ج5ص356۔ 357) تو اب اگر حضرت المؤلف کا طریقہ اپنایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سنتالیس، اکتالیس اور انتالیس رکعات والے آثار صحیح ہونے کی ایک پر زور شہادت یہ بھی ہے
Flag Counter