کہ فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی، حافظ ابن عبدالبر اور محمد ابن نصر مروزی رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
(وقال إسحاق بل نختار إحدى وأربعين ركعة على ماروى عن أبي بن كعب عن الاسود بن یزید کان یصلی اربعین رکعۃ الخ “عن مالک قال الخ)
”اسحاق نے کہا بلکہ ہم اکتالیس کو پسند کرتے ہیں جیسا کہ ابی بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔ اسود بن یزید سے ہے کہ وہ چالیس رکعت پڑھتے تھے الخ مالک سے ہے کہ انھوں نے کہا الخ۔ “
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے صحیح وسقیم ہونے کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ امام مالک، امام ترمذی محمد بن نصرمروزی اور حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر جیسے جلیل القدر ائمہ حدیث کو زیادہ حاصل ہے یا عصر حاضر کے ان حضرات کو جوان کی نسبت طفل مکتب ہیں؟
سَتُبْدِي لَكَ الأيَّامُ مَا كُنْتَ جَاهِـلاً
ويَأْتِيْـكَ بِالأَخْبَـارِ مَنْ لَمْ تُـزَوِّدٖ
”عنقریب زمانہ تیرے لیے وہ چیز یں ظاہر کردے گا جس سے تو واقف نہ تھا اور ایسے ایسے لوگ آکر تجھے خبریں بتائیں گے جنہیں تو نے زادراہ دے کر نہیں بھیجا۔ “
4۔ ورابعا: امام ترمذی کا بیان یہ نہیں کہ بیس رکعات کا سنت نبویہ یا سنت خلفاء راشدین ہونا سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک امام شافعی اور اکثر اہل قول علم کا قول و مذہب ہے اور نزاع تو بیس رکعات کے سنت نبویہ اور سنت خلفاء راشدین ہونے میں ہے نہ کہ اقل یا اکثر اہل علم کے بیس یا بیس سے کم و بیش رکعات پڑھنے پڑھانے میں ہاں اگر سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، امام ترمذی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ کے بیس
|