الاجماع لها ولا كانت في زمان الصديق)
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ یہ اچھی بدعت(نئی چیز) ہے آپ کی طرف سے اس بات کی تصریح ہے کہ آپ(عمر رضی اللہ عنہ) پہلے آدمی ہیں جنھوں نے لوگوں کو قیام رمضان میں ایک امام پر جمع کردیا کیونکہ بدعت(نئی چیز) وہ ہے جسے اس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو اور مبتدع اس کا آغاز کرے۔ چنانچہ عمر نے اس کی ابتداء کی۔ الی قولہ۔ پس اس کا نام بدعت رکھا کیونکہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے اجتماع کاطریقہ مقرر فرمایا اور نہ ہی صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھی۔ “
(حوالہ مذکور ہوچکا ہے) دیکھئے علامہ زرقانی نے نہ تو بیس رکعات کو بدعت کے مفہوم میں شامل کیا ہے اور نہ ہی عشاء کے بعد رات کے اول حصہ میں اس نماز کی ادائیگی کو۔
2۔ وثانیاً:حجۃ اللہ کو جو عبارت صاحب رسالہ نے نقل فرمائی ہے اس میں نہ تو ذکر ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام کا، نہ ان کے ایام کا، نہ ان کے ایام کے کام کا اور نہ ہی ان کے کلام (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کا تواس عبارت میں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ صحابہ نے قیام رمضان میں تین چیزوں کا اضافہ کیا الخ رہی یہ بات کہ قیام رمضان میں ان تین چیزوں کا اضافہ کرنے والے کون کون سے صحابہ تھے، یہ اضافہ انہوں نے کس دور میں کیا خلفاء اربعہ کے زمانے ختم ہونے کے بعد یا ان میں سے کسی ایک کے زمانہ میں پھر انہوں نے ان تین چیزوں کا اضافہ یکمشت کیا یایکے بعد دیگرے حجۃ اللہ کی منقولہ بالا عبارت میں ان تینوں باتوں سے کسی ایک بات کا بھی بیان نہیں ہواتو پھر اس عبارت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا بات(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کے مفہوم میں بیس رکعات وغیرہ کے داخل ہونے کی دلیل کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
جب کہ حجۃ اللہ کی محولہ بالا عبارت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منقولہ(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کا
|