میں جس قدر جائزکا م معرض وجود میں آئے خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ کام خود نہ بھی کئے ہوں اور نہ ہی ان کے کرنے کا حکم دیا ہوبلکہ ان کے خلاف کا حکم ہی کیوں نہ دیا ہو ان سب کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت قراردیا جائے۔
(وَاللَّاِزُم كَمَا تَرَي وَقِسْ عَلٰي هٰذَا عَهْدَيْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰه عَنْهُمَااذالقيام بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَاْلَامْرُ بِهٖ لَمْ يَثْبُتَاعَنْهُمَ ايضاً)
”اور یہ لازم ایسا ہے جیسا تم دیکھ رہے ہو(یعنی بے بنیاد ہے) اور اسی پر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے زمانہ کا قیاس کرلیجئے کیونکہ بیس رکعات قیام یا اس کا حکم دونوں چیزیں ان دو بزرگوں سے بھی ثابت نہیں“۔
نیز عہد فاروقی میں رات کے ابتدائی حصہ میں قیام رمضان کی ادائیگی کے بارہ میں علامہ زرقانی کی تحقیق ملاحظہ فرماتے جائیے۔ چنانچہ وہ شرح مؤطا میں لکھتے ہیں:
(وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ اَوَّلَهُ) ثُمَّ جَعَلَه عُمَرُ فِيْ آخِر اللَّيْلِ.....الخ) (ج ا ص 238)
” لوگ رات کے شروع میں قیام کرتے تھے پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رات کے آخر میں بدل دیا۔ “
علامہ زرقانی کی اس بات کو صاحب التعلیق الممجد حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی نے نقل فرما کر سکوت اختیار کیا ہے تو اب قابل غور چیز یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیام کو اول اللیل سے بدلا کر آخر اللیل میں کردیا تو پھر اسے(عشاء کے بعد رات کے اول حصہ میں اس نماز کی ادائیگی کو) ان کے مقولہ(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کے مفہوم میں کیسے داخل کیاجاسکتا ہے؟ نیز جملہ(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کے بارہ میں علامہ زرقانی کی تشریح سنئے وہ فرماتے ہیں:
(وهذا (ايْ قُوْلُه نِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ) تصريح منه بانه(اي تصريح من عمر بأنه) أول من جمع الناس في قيام رمضان على إمام واحد لأن البدعة ما ابتدا بفعلها المبتدع ولم يتقدمه غيره فابتدعه عمر اِلٰي قُوْلُه فسماها بِدْعَةُ لِأَنَّهُ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم لم يسن
|