رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں قائم شدہ جماعت کے ساتھ نماز تراویح نہ پڑھتے تھے اور اس سے کسی شخص کے مدینہ منورہ میں رہنے سے اس کے مسجد نبوی میں باجماعت نماز تراویح ادا کرنے پر استدلال کرنے پر بھی روشنی پڑھتی ہے پھر سبل السلام کی عبارت(جو ہم آئندہ نقل کریں گے ان شاء اللہ) سے(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کا مفہوم سمجھنے میں کچھ نہ کچھ مدد ملتی ہے لہٰذا اسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔
اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ کئی آثار میں بیس رکعات کا بھی تو آخر ذکر ہے نا تو ان کی خدمت میں گزارش ہےکہ ان آثار کی تحقیق پہلے گزرچکی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں سردست اتنی بات یاد رکھیں کہ ان آثار سے جس ایک اثر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیس کا حکم دینے کا ذکر ہے وہ تو بالکل ہی ناقابل اعتبار ہے۔ (كما تقدم) اور جس ایک اثر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اکیس پر جمع کرنے کا تذکرہ ہے اس میں داؤد بن قیس اکیس کہنے میں محمد بن یوسف کے شاگردوں امام مالک، یحیٰ بن سعید القطان، محمد بن اسحاق اور عبدالعزیز بن محمد کی مخالفت کرتے ہیں اور باقی آثار کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات پڑھتے تھے پھر ان آثار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ لو گ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ایک قاری پر جمع کرنے سے پہلے بیس پڑھتے یا بعد میں تو ٖظاہر ہے کہ ان حالات میں بیس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقولہ (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کے مفہوم میں شامل کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟جب کہ عالم یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی آمد میں یہ منقولہ نہیں بولا اور معلوم ہے کہ پہلی آمد کے موقع پر بھی لوگوں کی نماز تراویح عددرکعات پر مشتمل تھی۔
یہ تو ٖظاہر ہوگیا کہ بیس رکعات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقولہ مذکورہ کے مفہوم میں شامل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اب یہ بھی یاد رکھئے کہ بیس رکعات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت قراردینے کی بھی کوئی دلیل نہیں اگر مان بھی لیا جائے کہ کچھ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بخلاف امر فاروقی بیس رکعات پڑھتے تھے تو اتنی بات سے بیس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا لماتقدم ورنہ لازم آئے گا کہ عہد فاروقی
|