Maktaba Wahhabi

360 - 896
یہ الفاظ صاف صاف بتلا رہے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس چیز کو (نِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ) سے تعبیر فرمایا جس کو انہوں نے پہلی آمد میں نہیں اور دوسری آمد میں دیکھا اور وہ چیز یہی تھی کہ لوگوں کا ایک قاری کی اقتدا میں قیام رمضان ادا کرنا اس کے علاوہ دوسری چیزیں مثلاً قیام رمضان کا مسجد میں ہونا، اسے عشاء کے بعد رات کے اول حصہ میں ادا کرنا اور رکعات قیام رمضان کی تعداد تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلی آمد میں ہی ملاحظہ فرماچکے تھے مگر انہوں نے پہلی آمد میں (نِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ) جملہ نہیں بولا بلکہ دوسری آمد میں یہ جملہ بولا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو دوسری آمد میں کوئی نئی چیز نظر آئی جس کا انہوں نے پہلی آمد میں مشاہدہ نہیں فرمایا تھا اور اس نئی چیز کو دیکھنے پر ہی آپ نے(نِعْمَتِ البِدْعَةُ هَذِهِ) جملہ بولا لہٰذا نماز تراویح کی تعداد، نماز تراویح کے مسجد میں ادا کرنے، نماز تراویح کو باجماعت ادا کرنے اور نماز تراویح کو رات کے ابتدائی حصہ میں ادا کرنے کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقولہ(نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) كےمفہوم میں شامل کرنا کسی طرح بھی درست نہیں اس کے مفہوم میں تو صرف وہی چیز شامل ہے جس کو اس جملہ کے متکلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بذات خود اپنے ان الفاظ میں واضح فرما رہے ہیں:( إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِیٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ) (ميرا خيال ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک ہی قاری پر جمع کردوں تو زیادہ بہتر ہے) حضرت عمررضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ پہلی آمد کے موقع پر ہیں آپ کے ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد حضرت عبدالرحمان قاری فرماتے ہیں: (ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ) ”پھر آپ نے پختہ ارادہ کرلیا اور انہیں ابی بن کعب پر جمع فرمادیا پھر ایک اور رات میں آپ کے ساتھ نکلا تو لوگ اپنے قاری کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے“ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) ( یہ اچھی بدعت(نئی چیز) ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ دوسری آمد کے موقع پر ہے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ایک ہی قاری کی اقتداء میں نماز تراویح پڑھ
Flag Counter