احتجاج قراردینے سے اتفاق نہ کرنا میرے کسی ایک حوالہ کی بھی تغلیط وتردید نہیں ہے۔
2۔ ثانیاً، بندہ نے آپ کے اس مشورہ کو پہلے ہی سے مد نظر رکھا ہوا ہے اسی لیے تو میں نے اپنےپہلے رقعہ میں لکھا”تو محترم امجد صاحب!قاری صاحب نےجن ائمہ محدثین سے حضر ت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ والی روایت کا قابل احتجاج ہونا نقل فرمایا ان کے نام اور ان کی تعداد آپ کے سامنے ہے جن سے ابن القطان کی تصحیح کاحال بھی آپ کو معلوم ہوچکاہے اب یہ بھی یاد رکھئے کہ اس روایت کو ضعیف اورناقابل احتجاج قراردینے والے ائمہ محدثین بہت ہی زیادہ ہیں جن سے بارہ کے اسماء گرامی مع حوالہ اوپر گزر چکے ہیں“(میرا رقعہ نمبر 1ص5) میری اس عبارت کو غور سے پڑھیں آپ پر واضح ہوجائےگا کہ میں نے تو شروع ہی سے اپنے بڑوں کو مد نظر رکھا ہے لہٰذاقاری صاحب کامیری اس قسم کی عبارات کو پڑھ کر یہ مشورہ دیناغمازی کرتا ہے کہ وہ بندہ کی اس قسم کی عبارات کو سمجھے ہی نہیں یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بندہ کی ایک اورعبارت ملاحظہ فرمالیں۔ چنانچہ میرے پہلے ہی رقعہ میں لکھا ہے”یہ تو قاری صاحب کے حضرت عبداللہ بن مسعود والی روایت سے استدلال کا پہلا جواب تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بہت سارے ائمہ محدثین کے ہاں سرے سے قابل احتجاج ہی نہیں“(میرا رقعہ نمبر1ص 7) کیوں جی قاری صاحب! آپ نے دیکھ لیا کہ بندہ نےاس روایت پر کلام کر تے ہوئے اپنے بڑوں کو ملحوظ رکھاہواہے اور بات چیت کے آغاز سے لے کر اب تک ان کو مد نظر رکھا ہواہے مشورہ دیتے وقت بھی اللہ تعالیٰ سےڈرنے کی ضرورت ہے تو صرف دوسروں کو ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین نہ کروخود بھی تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
|