ثلثہ میں حکایت نمبر246 کے عنوان سے لکھی ہے۔ سنیے:
”حضرت عم محترم مولانا حبیب الرحمان مرحوم نے فرمایا کہ مولوی احمد حسن امروہی اور مولوی فخر الحسن گنگوہی میں باہم معاصرانہ چشمک تھی اور اس نے بعض حالات کی بنا پر ایک مخاصمۃ اور منازعۃ کی صورت اختیار کر لی اور مولوی محمد الحسن گو اصل جھگڑے میں نہ شریک تھے نہ انہیں اس قسم کے اُمور سے دلچسپی تھی مگر صورت حال ایسی پیش آئی کہ مولانا بھی بجائے غیر جانبدار رہنے کے کسی ایک جانب جھک گئے اور یہ واقعہ کچھ طول پکڑ گیا۔ اسی دوران میں ایک دن علی الصبح بعد نماز فجر مولانا رفع الدین صاحب نے مولانا محمودالحسن صاحب کو اپنے حجرہ میں بلایا(جو دارالعلوم دیوبند میں ہے)مولانا حاضر ہوئے اور بند حجرہ کے کواڑکھول کر اندر داخل ہوئے موسم سخت سردی کا تھا۔ مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، پہلے یہ میرا روئی کا لبادہ دیکھ لو۔ مولانا نے دیکھا تو ترتھا اور خوب بھیگ رہا تھا فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جسد عنصری(ظاہری جسم ) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے جس سے میں ایک دم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا۔ اور فرمایا کہ محمود حسن کو کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے، بس میں نے یہ کہنے کے لیے بلایا ہے۔ مولانا محمود الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد میں اس قصہ میں کچھ نہ بولوں گا۔ “
(ارواح ثلثہ ص223شائع کردہ دارالاشاعت کراچی)
اس پر مولانا اشرف علی تھانوی حاشیہ چڑھاتے ہیں:
”یہ واقعہ روح کا تمثل تھا اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ جسد مثالی تھا مگر مشابہ جسد عنصری کے۔ دوسری یہ کہ روح نے خود عناصر، میں
|